ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے ایک بار پھر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل سے عالمی پانیوں میں غزہ کی جانب گامزن امدادی قافلے ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ پر ننگی جارحیت اور غزہ کے چار سالہ محاصرے پر معذرت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انقرہ میں برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایردوان نے اسرائیل سے فریڈم فلوٹیلا پر کی گئی بربریت میں شہید ہونے والے 09 ترک رضاکاروں کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنے کی اپیل کی، انہوں نے کہا کہ یہ امدادی کارکن انسانی مشن پر گامزن تھے، ان کے ہمراہ چار سال سے اسرائیلی محاصرے میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے اہل غزہ کے لیے دوائیاں اور خوراک تھی۔ انہوں نے فی الفور غزہ کا بری اور بحری محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایردوان نے کہا ’’آج غزہ ایک کھلا عقوبت خانہ بن چکا ہے۔ اہل غزہ آئے روز صہیونیوں کی جانب سے جنگ، لڑائی اور دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے حالیہ جنگ میں غزہ پر فاسفورس بم برسا کر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔ وہاں پر زیر زمین تہ خانوں سمیت ہر طرح کی عمارتیں مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں حتی کہ اقوام متحدہ کی عمارتیں بھی تباہی کا شکار ہو گئیں، اتنی تباہی کے باوجود اسرائیل نے اب تک وہاں ایک بھی عمارت کے لیے تعمیراتی سامان کے داخلے کی اجازت نہیں دی۔ ترکی کے وزیراعظم نے غزہ پر ڈھائے جانے والے اندوہناک مظالم اور جنگ کے بعد اب تک وہاں پر تعمیر نو کا کام شروع نہ کروانے پر عالمی برادری کی خاموشی پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ شرم الشیخ میں غزہ کی پٹی کی تعمیرنو کے لیے ڈونرز نے 4.5 ملین ڈالرز امداد کا وعدہ کیا مگر غزہ میں اب تک کسی درخت کے پتے نے بھی حرکت نہیں کی، غزہ کے لیے سمندری، بری اور فضائی جس راستے سے بھی امدادی سامان بھیجا جاتا ہے اسرائیل جارحیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر برطانیہ کے وزیراعظم نے بھی اپنا موقف دوہراتے ہوئے کہا کہ غزہ ایک جیل بن چکا ہے اور وہاں پر انسانی بحران انتہائی نازک ہو چکا ہے۔ کیمرون نے کہا ہم پر غزہ کا محاصرہ توڑنا اور وہاں پر ہر طرح کی امدادی اشیاء پہنچانا لازم ہو چکا ہے۔ انہوں نے قابض اسرائیلی ریاست سے دو دہائی قبل دستخط کیے گئے اور اب تک بے ثمر ثابت ہونے والے امن معاہدے پر عمل کرنے اور علاقے میں حقیقی امن لانے کا مطالبہ کیا۔