مغربی کنارے میں فلسطینی غیر آئینی حکومت اور اسرائیل کے مابین براہ راست مزاکرات پر حماس قیادت کی جانب سے رام اللہ حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے اسرائیلی صدر پر فتح حکومت سے براہ راست مزاکرات کے دباؤ کے بعد اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے رہنما ڈاکٹر صلاح بردویل نے دشمنوں سے مزاکرات کی بحالی کو انتہائی بڑا جرم قرار دیا ہے۔ دوسری جانب حماس کے ترجمان ابوزھری نے اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی اس ہدایت کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ بردویل نے ذرائع ابلاغ کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’اس دوران جب ہمارے فلسطینی بھائیوں پر محاصرہ، یہودیانے اور زبردستی ہجرت کروانے جیسے مشکلات مسلط کر دی گئی ہیں ہم کسی بھی طرح کے بالواسطہ یا براہ راست مزاکرات کو ان جرائم پر پردہ ڈالنے کی براہ راست کوشش قرار دیں گے۔ انہوں نے فتح سے اپیل کی کہ وہ مزاکرات کے کھیل سے باہر آ کر فلسطینی قوم کی صفوں میں آ ملے اور فلسطینی مسلمہ اصولوں پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے کیونکہ یہ ہی راستہ سب سے زیادہ محفوظ طریقہ ہے۔ دریں اثنا حماس کے ترجمان نے بھی امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے مابین ملاقات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی سیاسی، مادی اور سکیورٹی امداد کی موجودگی میں امریکا کی حالیہ پالیسی میں تبدیلی کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے امریکا کی جانب سے اسرائیل کو فلسطینی غیر آئینی حکومت کے ساتھ براہ راست مزاکرات کی ہدایت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے مزاکرات کرنا بہت بڑا جرم ہے اس کا مقصد فلسطینی قوم پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کی پردہ پوشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے ’’محاصرے میں نرمی‘‘ کے اسرائیلی فیصلے کی امریکی تعریف محاصرے کو قابل قبول بنانے کی ایک کوشش ہے۔