فلسطین کی سرکردہ مزاحمتی تحریک “اسلامی جہاد ” کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عرب حکمران مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ مشرق وسطی امن مذاکرات کی بحالی کا حالیہ فیصلہ وائٹ ہاؤس میں کیا گیا ہے۔
اسلامی جہاد کے ایک ترجمان نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ عرب وزارتی اجلاس کی عملی طور پر کوئی اہمیت نہیں۔ یہ صرف سیاسی ٹوپی ڈرامہ ہے۔ عرب وزارتی کمیٹی کے پاس امن مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں۔
جہاد اسلامی کے بہ قول فلسطینی اورعرب عوام کو بڑے پیمانے پر گمراہ کیا جا رہا ہے۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام درحقیقت بند نہیں ہوا۔ یہودی بستیوں کی تعمیر اب بھی جاری ہے۔
تنظیم نے کہا کہ عرب ممالک کا واضح سرکاری موقف اور مذاکراتی کیمپ کی متردد صورتحال کے باعث فلسطینی قومی منصوبے کو خطرات لاحق ہیں۔ عرب دنیا کی جانب سے فلسطینیوں کو اپنی صفوں میں انتشار ختم کرنے کی اپیلوں کی مذمت کرتے ہوئے جہاد اسلامی نے کہا کہ یہ لوگ امن مذاکرات کو خیرباد نہ کہہ کر دراصل فلسطینیوں کو تقسیم سے دوچار کر رہے ہیں۔
ترجمان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عرب اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے مسلمہ اصولوں کے علی الرغم نقطہ نظر اختیار کر رکھا ہے۔ انہیں فلسطینیوں نے اپنی ترجمان کا حق تفویض نہیں کیا۔