القدس میں عرب القدس اسٹڈی سینٹر کے محکمہ سروے و نقشہ سازی کے ڈائریکٹر خلیل تفکجی نے کہا ہے کہ اسرائیل بیت المقدس میں اپنے مذہبی عقائد کو عملی شکل دینے کے لیے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ عمان میں اردنی خبر رساں ادارے”بٹرا” کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس میں اب تک کی جانے والی کھدائیوں سے یہودی ریاست یا ہیکل سلیمانی کا کوئی وجود نہیں ملا۔ اس ناکامی کے بعد اسرائیل نے بیت المقدس کی تاریخی علامات اور قدیم شہر کی جغرافیائی ہیئت تبدیل کرکے ایک نئے شہر کی بنیادیں رکھنا چاہتا ہے۔ تفکجی نے اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس کے خلاف جاری رکھی گئی سازشوں پرعرب ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جارحیت کی راہ روکنےکی کوشش کریں اور اسرائیل کی جانب سے شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد رکوائیں۔ ایک سوال کے جواب میں خلیل تفکجی کا کہنا تھا کہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں نسلی امتیازپرمبنی دیوار کی تعمیر نے شہریوں کی روز مزہ زندگی پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ نسلی دیوار اور یہودی آبادیوں کی وجہ سے شہر کو کئی حصوں میں عملی طور پر تقسیم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ کئی علاقے عملا القدس شہر سے باہر ہوچکے ہیں۔ نسلی دیوار کی تعمیر سے فلسطینی اکثریتی علاقوں کی اکثریت بھی متاثر ہوئی ہے اور کئی عرب علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل نے 1967ء کے بعد سے اب تک 10 ہزار شہریوں کی شہریت سلب کرلی ہے جبکہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت 1994ء سے 2009ء تک 876 مکانات مسمارکیے گئے ہیں۔ خلیل تفکجی نے کہا کہ شہر میں ذرائع ابلاغ، ثقافت اور اسپورٹس کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہر میں تعلیم صحت اور بنیادی سہولیات سے متعلق جو سہولیات القدس کے جڑواں شہروں کو حاصل ہیں اس سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔