بریریت کے علمبردار اسرائیل کی جارحیتوں کا نشانہ سب سے زیادہ فلسطینی بچے بنتے ہیں۔ مرکز احرار برائے حقوق اسیران کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں اسرائیل نے 15 سو فلسطینی بچوں کو موت کی نیند سلا کر اور پچھلے تین سالوں میں 11000 بچوں کو گرفتار کرکے اپنی درندگی کو جلا بخشی ہے۔ مرکز احرار کی تازہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی بچوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم حقوق انسانی کے تمام میثاقوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی توہین ہیں تاہم نسلی برتری کی زعم میں مبتلا اسرائیل خود کو ان سب قوانین سے بالا سمجھتا ہے۔ مرکز نے انسانی حقوق کی تمام بین الاقوامی تنظیموں سے بالعموم فلسطینی قوم اور بالخصوص فلسطینی بچوں کے خلاف رقم کی جانے والی ظلم و بربریت کی ان صہیونی داستانوں پر اسکا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو موصول ہونے والی فلسطین میں انسانی حقوق اور اسیران کے معاملات کا جائزہ لینے والے احرار سنٹر کی تازہ رپورٹ کی کاپی کے مطابق 28 ستمبر 2000ء کو اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے دوسرے انتفاضہ سے اب تک اسرائیل تقریبا 1500 بچوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ مرکز کے ریسرچ اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نواف العمرکے مطابق اسرائیل نے فلسطینی بچوں کو خصوصی طور پر اپنی درندگی کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ صہیونی فوجی بچوں کو اغوا کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ گرفتار کیے جانے والے نوعمر لڑکوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ان سے انتہائی ناروا سلوک اختیار کیا جاتا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں قابض اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اغوا کیے جانے والے فلسطینی نونہالوں کی تعداد کا جائزہ لیں تو سنہ 2008ء میں 4266، سنہ 2009ء میں 3257 اور سنہ 2010ء میں 3257 نو عمر فلسطینیوں کو اسرائیل کا تسلط تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں عقوبت خانوں میں بھیجا گیا۔ اس طرح ان تین سالوں میں 11019 بچے گرفتار کرلیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ان تین سالوں میں اسرائیل نے 103 نوعمر بچیوں کو بھی گرفتار کیا، سنہ 2008ء میں 56، سنہ 2009ء میں 45 جبکہ سنہ 2010ء میں 02 بچیاں گرفتار کی گئیں۔ خیال رہے کہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے انتظامی حراست میں بھی رکھا جاتا ہے۔ اسرائیل حکام اس مقصد کے لیے فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ کے دوران سنہ 1928ء میں پیش کیے گئے ھنگامی قانون کو آج تک استعمال کررہے ہیں۔ انتظامی حراست کے اس قانون کی بدولت فلسطینیوں کی زندگی کے کئی قیمتی سال بغیر کسی فرد جرم کے عقوبت خانوں کی نذر کردیے جاتے ہیں۔ تاہم مرکز کی ریسرچ کے مطابق اس تین سالہ عرصے میں کسی فلسطینی بچے کو انتظامی حراست میں نہیں رکھا گیا۔ سنہ 2000ء سے تاحال اسرائیلی درندہ صفت فوجیوں کے ہاتھوں شہید کیے گئے کل 1337 بچوں کی تفصیل کے مطابق سنہ 2000ء میں 94، سنہ 2001ء میں 98، سنہ 2002ء میں 192، سنہ 2003ء 130، سنہ 2004ء میں 162، سنہ 2005ء میں 52، سنہ 2006ء میں 124، سنہ 2007ء میں 50، سنہ 2008ء میں 112، سنہ 2009ء میں 315 جبکہ گزشتہ سال 08 نو عمر لڑکوں اور بچوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ صہیونی فوج کے فضائی حملے، گولہ باری، فائرنگ، جھڑپیں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائیاں بچوں کی موت کا سبب بنیں۔ بچپن میں ہی داعی اجل کو لبیک کہنے والے بچوں میں غزہ کی پٹی کے بچے سرفہرست رہے۔ غزہ کی پٹی کے 977 بچے شہید ہوئے۔ دوسرے نمبر پر ضلع نابلس کے 92 اور تیسرے نمبر پر ضلع جنین کے 77 بچے جام شہادت نوش کر گئے۔ مرکز احرار کے ڈائریکٹر فواد خفش نے فلسطین کے معصوم بچوں کے خلاف کیے جانے والے ان جرائم کی ساری ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے فلسطینیوں بالخصوص بچوں اور خواتین کے خلاف کیے جانے والے تمام جرائم پر اسرائیل کا کڑا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔