حکومت کی طرف سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور باہر سے آئے ہوئے وفود کا استقبال کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر احمد یوسف نے کہا ہے کہ اس ماہ سمندری راستوں سے آنے والی محاصرہ توڑنے والی کشیوں اور کارکنوں پر اسرائیل نے حملہ کرنے کی تیاریا ں شروع کی ہیں اور ایسا کرنا ایک سنگین جرم کے مترادف ہوگا۔
ڈاکٹر یوسف نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بات کی نوٹس لیں اور سمندی راستوں سے غزہ آنے والوں کی حفاظت کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ محاصرہ توڑنے کے منتظمین شروع سے بحری جہاز رانی اور سفر کے عالمی قوانین و ضوابط کی پاسداری کا خیال رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشتیوں میں غزائی اجناس اور ادویات ہونگی جو انسانی بنیادوں پر سیاست سے بالا تر ہو کر غزہ پہنچائی جائنگی۔ڈاکٹر احمد نے واضح کیا کہ امداد لانے والے کارکن پرجوش ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اس امداد کو غزہ پہنچائیں گے چاہے انہیں کسی بھی قسم کے خطرے سے ہی کیوں نہ دوچار ہونا پڑے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی بحری فورسز نے سمندری علاقوں میں کئی مشقیں کی ہیں تاکہ وہ وقت آنے پر ان کشتیوں کو روک سکیں جو غزہ کی طرف جانے کی کوشش کریں گی۔ اسی مناسبت سے محاسرہ مخالف پاپولر کمیٹی کے سربراہ اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر جمال الخضری نے کہا ہے کہ کہ سمندر میں اسرائیلی فوجیوں کی مشقیں کرنا در اصل آزادی کے بحری بیڑے کو خوف زدہ کرنے کی ایک کوشش ہے جو باہر سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ میں امداد لیکر آنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر جمال نے کہا کہ جو جہاز سمندری راستے کے ذریعے غزہ پہنچیں گے ان میں کوئی گولہ بارود یا فوجی سازو سامان نہیں ہوگا بلکہ غزائی اجناس اور ادویات ہونگے۔ ڈاکٹر جمال نے خبردار کیا کہ اگر ان جہازوں کو روکا گیا تو اس کا مطلب 40 ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم کا اندیشہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ان امدادی جہازوں میں باہر کے ممالک سے آئے ہوئے 600 کارکن بھی ہونگے،جن میں ممبران پارلیمنٹ،سیاست دان ،دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے شامل ہونگے،جو عالمی قوانین کو جا نتے ہیں اور ان ہی کی روشنی میں یہاں سمندری راستوں کے ذریعے پہنچیں گے۔