Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

فلسطینی قیدیوں کا انتفاضہ آزادی یا شہادت

تحریر: صابر کربلائی 
ریسرچ اسکالر مرکزی ترجمان فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان

اسرائیلی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں کے لا متناہی درد کے صفحات کی کہانی انتہائی درد ناک ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ 5000سے زیادہ فلسطینی قیدی انتہائی خطر ناک حالت میں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور صیہونی مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔

plf sabir

تحریر: صابر کربلائی 
ریسرچ اسکالر مرکزی ترجمان فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان

اسرائیلی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں کے لا متناہی درد کے صفحات کی کہانی انتہائی درد ناک ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ 5000سے زیادہ فلسطینی قیدی انتہائی خطر ناک حالت میں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور صیہونی مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں میں خواتین،بچے اور بوڑھوں سمیت نوجوانوں کی بڑی تعدادموجود ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر غاصب صیہونی فوجیوں کی جانب سے نفسیاتی اور جسمانی اذیتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔دریں اثناءفلسطینی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کی ایک چیخ سنائی دیتی ہے تاہم وہ کافی نہیں ہے۔ایسے حالات میں صیہونی زندانوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقامت کا جو ہتھیار پسند کیا ہے وہ ہے اسیروں کی بھوک ہڑتال۔یعنی فلسطینی مجاہد عوام نے جو اس وقت غاصب اسرائیل کے عقوبت خانوں میں اپنی زندگی کے روز و شب گزار رہی ہے نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب دو ٹوک بات ہو گی،یعنی ،”آزادی یا شہادت“۔اس عزم کے ساتھ کہ شاید ہماری شہادت یا ہماری آزادی تمام فلسطینیوں کی مشکلات اور قید وبند کی سختیوں کو ختم کرنے کا باعث بنے۔

فلسطینی اسیروں نے عہد کر لیا ہے کہ اب وہ اس وقت تک صیہونی زندانوں میں بھوک ہڑتال پر رہیں گے جب تک آخری فلسطینی قیدی صیہونی جیلوں سے رہائی نہیں پا لیتا۔اور اس عظیم جہاد کے لئے انہوں نے جہاد کی راہ میں جس ہتھیار کو اختیار کیا ہے وہ کوئی بندوق یا کوئی ٹینک یا پھر کوئی میزائیل نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید ہونے کے باوجود فاتح قرار دلوایا ہے۔بھوک ہڑتال ! بھوک ہڑتال فلسطینی اسیروں کا ایسا ہتھیار ہے جس نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر امتحان میں ڈال دیا ہے۔خصوصاً باقت کے نشے میں دھت غیر قانونی جارح ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کو کہ فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیران کے انتفاضہ کے سبب پوری دنیا امریکہ اور اسرائیل کے اصلی اور مکروہ چہرے کو دیکھ رہی ہے۔دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں انسانی حقوق کے نام پر واویلا کرنے والا امریکہ ،اسرائیل کے اندر انسانی حقوق کی پائمالی پر نہ صرف خاموش بلکہ انسانی حقوق کو تاراج کرنے میں بھرپور طور پر شامل بھی ہے۔

 

آج کل اسرائیلی جیلوں میں قید جو فلسطینی طویل مدت سے بھوک ہڑتال پر ہیں ان میں سر فہرست ایمن شروانہ ہیں جو آج 18دسمبر کو بھوک ہڑتال کے 171ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں ،ان کے ساتھ سامر العساوی ہیں جو آجب بھوک ہڑتال کے 140ویں روز میں داخل ہو گئے ہیں۔اسی طرح دیگر فلسطینی مجاہد قیدیوں میں طارق قعدان ،غفار عزالدین اور یوسف شعبان شامل ہیں جو اپنی احتجاجی تحریک یعنی بھوک ہڑتال کے 21ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایمن شروانہ اور سامر العساوی کے بارے میں میڈیکل ذرائع یہ کہتے ہیں کہ ان کا بچنا مشکل ہو تا جا رہاہے اگر ان کوبھوک ہڑتال سے نہ ہٹایا گیا تو یہ شہید ہو سکتے ہیں لیکن دوسری جانب ایمن شروانہ اور سامر العساوی پر عزم ہیں اور آزادی یا شہادت کے منتظر ہیں۔لیکن اپنا جہاد یعنی بھوک ہڑتال کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔

یہاں قارئین کی خدمت میں ایک اہم بات عرض کرتا چلوں کہ دنیا بھر میں ان فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کہیں ایک روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جا رہے ہیں تو کہیں روزے رکھ کر ان مجاہد فلسطینی اسیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جا رہی ہے تو کہیں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر آن لائن یکجہتی فورم بنا دیا گیا ہے جس کا مقصد فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیروں کی بھرپور حمایت اور یکجہتی کرنا ہے۔

اسی طرح فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے بھی پوری دنیا کے حریت پسندوں اور انسان دوستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے دونوں ہیرو ایمن الشروانہ اور سامر العساوی سے اظہار یکجہتی کے لئے پروگرام ترتیب دیں۔فلسطین وزیر اعظم نے دونوں مجاہد فلسطینی اسیروں کی جد وجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں مجاہدین پوری فلسطینی عوام اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی خاطر عظیم جہاد کر رہے ہیں اور اسرائیلی جیلوں میں قید ہونے کے باجود بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عنقریب شہید ہونے والے ہیں لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔لہذٰا پوری فلسطینی قوم اسیروں کے انتفاضہ میں برابر کی شریک ہے اور شہداءکی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔

اسرائیلی جیلیں غیر انسانی

کچھ احوال اسرائیلی جیلوں کا بھی ذکر کر دیا جائے کہ آخر اسرائیلی جیلوں کی کیا صورت حال ہے؟ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو مختلف بیس اسرائیلی جیلوں میں قید کیا گیا ہے جہاں پر رہنے کی جگہ انسانی زندگی کے قابل نہیں ہے۔اسرائیلی جیلیں کیڑوں،لال بیگوں ،چوہوں اور بچھوو¿ں سمیت کئی خطر ناک کیڑوں سے بھری پڑی ہیں جبکہ یہی خطر ناک کیڑے فلسطینی قیدیوں کے استراحت کے لئے استعمال کئے جانے والے سامان اور دیگر اشیاءمیں پائی جاتی ہیں اور فلسطینیوں کے لئے سخت اذیت کا باعث بنتی ہیں،جبکہ النقبہ کے مقام پر موجود ایک اسرائیلی جیل میں خطر ناک سانپ بھی موجود ہیں جو قیدیوں کے لئے خطر ناک ہیں۔

اسرائیلی حکام جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو بیس بیس گھنٹے لگاتار تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ان کو سونے بھی نہیں دیا جاتایا پھر جب ان کا دل چاہتا ہے فلسطینی قیدیوں کو نیند سے بیدار کر کے تفتیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل بیس بیس گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔ایک انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق 1400فلسطینی قیدی سخت بیماری کی حالت میں موجود ہیں جبکہ ان کو طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔اسرائیلی جیلوں کے حکام قیدیوں کو کئی کئی گھنٹے گرم اور سخت ٹھنڈے مقامات پر کھڑا رکھتے ہیں اور انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔نہ صرف یہی بلکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے اور ان کو نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کیا جا رہا اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ اسرائیل جیلیں غیر انسانی ہیں اور انسانیت کی سطح سے گری ہوئی ہیں۔

اسرائیلی معاہدے اور دھجیاں

چند ماہ قبل آپ نے میڈیا کے ذریعے سنا ہو گاکہ اسرائیلی حکام نے اپنے ایک فوجی افسر گیلاد شالیط کو حماس کے قبضے سے چھڑوانے کے لئے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا تھا۔لیکن اسرائیل نے اس معاہدہ کو دھماکے کی طرح اڑا دیاہے جبکہ آزاد ہونے والے متعدد فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل نے دوبارہ گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ فلسطینی قیدیوں کی تعداد آئے روز تبدیل ہو جاتی ہے اور بعض اوقات تو گھنٹوں کی بنیاد پر اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہوتی ہے اس لئے یہ کہنا انتہائی مشکل کام ہے کہ فلسطینی اسیروں کی کل تعداد کیا ہے۔ فلسطینیوں کو اس طرح قید کر لیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی جرم نہیں بتایا جاتا اور نہ ہی ان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

بھوک ہڑتال ہی واحدہتھیار ہے

اس طرح کے سخت حالات میں بھوک ہڑتال ہی واحد ایک ایسا ہتھیار ہے جو فلسطینی قیدیوں کی جنگ میں کام آ تا ہے جبکہ دو قیدی سمیر العساوی اور ایمن شروانہ جو کہ بالترتیب 171ویں اور 140ویں بھوک ہڑتالی روز میں داخل ہو چکے ہیں ان کی حالت شدید نازک ہو چکی ہے۔ایمن شروانہ کی حالت اس وقت شدید خطرناک ہے کیونکہ بھوک ہڑتال کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں جس کی وجہ اسرائیلی حکام کی جانب سے انہیں بر وقت ادویات فراہم نہ کرنا ہے۔جبکہ دونوں قیدیوں کے جسم کے حصوں نے احساسات کھو دئیے ہیں۔فلسطین میں حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ نے خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری نے قیدیوں کے مسئلہ پر اسرائیل پر دباو¿ نہ بڑھا یا تو نتائج خطر ناک ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں نے عہد کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی روح کے ساتھ شکست دینے کے لئے تیار ہیں اور بھوک ہڑتال کے اس ہتھیار کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہی حق فلسطینی قیدی حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل اب زیادہ دیر تک بین الاقوامی تحفظ میں نہیں رہ پائے گا اور امید ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے بھوک ہڑتالی انتفاضہ کے سامنے تسلیم خم ہو جائے گا۔اسرائیل یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین سے مبرا ہے اور فلسطینی قیدیوں کو لگتا ہے کہ نا معلوم مستقبل میں ہی ان کی قسمت ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ”اسرائیل سے صرف اور صرف مزاحمت اور مقاومت کی زبان میں بات کی جانی چاہئیے کیونکہ اسرائیل مزاحمت اور مقاومت کی زبان ہی سمجھتا ہے“۔

بشکریہ : ماہنامہ وائس آف فلسطین پاکستان

 

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan