غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی دفتر کے سربراہ کے میڈیا مشیر طاہر النونو نے کہا ہے کہ جماعت کی قیادت غزہ پر قابض اسرائیل کی جاری نسل کشی روکنے اور انسانی امداد میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے خطے کے رہنماؤں اور حکام سے وسیع سفارتی رابطے کر رہی ہے۔
طاہر النونو نے صفا کو دیے گئے بیان میں کہا کہ حماس متعدد ممالک سے اس بارے میں گفتگو کر رہی ہے کہ قابض اسرائیل کے جرائم کے ساتھ کس طرح نمٹا جائے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ انتہا پسند دائیں بازو کی حکومت نے ان ثالثی تجاویز کو مسترد کر دیا ہے جنہیں دو ہفتے قبل قاہرہ میں حماس اور دیگر فلسطینی جماعتوں نے قبول کیا تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ تحریک کے قائد مختلف ممالک کی سیاسی اور جماعتی شخصیات سے مسلسل رابطے کر رہے ہیں تاکہ انہیں ان کی تاریخی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جا سکے۔
طاہر النونو نے بتایا کہ جماعت کے عرب ممالک، مسلمان اور بین الاقوامی تعلقات کے دفاتر دنیا بھر کے سفیروں اور ذمہ داران کو تفصیلی یادداشتیں بھیج رہے ہیں، جن میں قابض اسرائیل کے جرائم، غزہ پر مسلط قحط، میدانِ جنگ کی صورتحال اور قطر و مصر کی ثالثی میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت کا خلاصہ شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی تعلقات کا دفتر موجودہ حالات میں فلسطینی موقف کو یکجا کرنے پر کام کر رہا ہے۔
طاہر النونو نے اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی کہ قابض اسرائیل کے قتل عام کا سلسلہ بدستور جاری ہے، حالیہ خان یونس کے قتل عام اس کی ایک تازہ مثال ہے، اس کے علاوہ صحافیوں کو بھی ہدف بنا کر شہید کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی طرح بھی غزہ کی صورتحال سے کم ہولناک نہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بنجمن نیتن یاھو کے منصوبے پورے فلسطینی قومی منصوبے کو نشانہ بنا رہے ہیں اور فلسطینی کاز کے خاتمے کی کوشش ہیں۔
طاہر النونو نے کہا کہ قابض اسرائیل کا مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا شرعی فریضہ، قومی تقاضا اور علاقائی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ قابض اسرائیلی فوج امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ غزہ پر نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 63 ہزار 633 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، 1 لاکھ 60 ہزار 914 زخمی ہیں، 10 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں، قحط کے باعث سیکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 20 لاکھ سے زائد فلسطینی بدترین جبری بے دخلی اور تباہی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔