غز ہ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) امریکی شہریت رکھنے والے قابض اسرائیل کے فوجی عیدان الیگزینڈر نے جسے اسلامی تحریک مزاحمت ’ حماس‘ نے قید سے رہا کیا تھا، گذشتہ جمعرات امریکی ریاست نیو جرسی میں قابض فوج کے حامیوں کی انجمن کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آئندہ ماہ دوبارہ باضابطہ طور پر قابض فوج میں شامل ہو جائے گا۔
عیدان نے کہاکہ”میرا نام عیدان الیگزینڈر ہے، میری عمر 21 برس ہے، میں قابض اسرائیل کی فوج میں خدمات انجام دے چکا ہوں اور 7 اکتوبر کو حماس نے مجھے گرفتار کیا۔ اس دن میں اپنے ساتھی فوجیوں کے ساتھ حماس کے خلاف لڑ رہا تھا”۔
حماس نے مئی سنہ2025ء میں عیدان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا تھا۔ یہ رہائی قطر سمیت ثالث ممالک کے کردار اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطے کے دورے کے موقع پر ہوئی۔ اس رہائی کو اس وقت ایک خیرسگالی اقدام قرار دے کر خوراک اور دواؤں کی غزہ میں فراہمی کی امید دلائی گئی تھی مگر حقیقت میں یہ وعدے کبھی پورے نہ ہو سکے۔
اعلان کے پس پردہ چال
یہ خطاب محض ایک ذاتی اعلان نہیں تھا بلکہ قابض اسرائیل اور اس کے حامیوں کی جانب سے ایک پروپیگنڈا پیغام تھا تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ صہیونی فوج سات اکتوبر کی ذلت آمیز شکست سے نکل آئی ہے۔ ساتھ ہی اس کوشش کے ذریعے “ناقابل شکست فوج” کا چہرہ دوبارہ تراشنے کی کوشش کی گئی تاکہ صہیونی معاشرے میں پھیلتی مایوسی اور شکست خوردگی پر پردہ ڈالا جا سکے۔
قابض اسرائیل نے اس اعلان کو قیدیوں کے مسئلے کو سیاسی اور میڈیا ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تاکہ داخلی صفوں کو جوڑ سکے اور حکومت، فوج اور عوام کے درمیان بڑھتے اختلافات کو چھپایا جا سکے، نیز مغربی اتحادیوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ اس کی فوج اب بھی اپنے زخم سہنے کے بعد لڑائی جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
صہیونی بیانیوں کا انہدام
مگر سچائی بالکل مختلف ہے۔ عیدان کا خطاب قابض اسرائیل کے تکبر اور رعونت کو بے نقاب کرتا ہے جس نے اسے مزید تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ سات اکتوبر کے بعد قابض اسرائیل کی شبیہ دنیا بھر میں ایسی بگڑی ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی عالمی اداروں نے واضح کیا ہے کہ غزہ پر جنگ حالیہ دہائیوں میں شہریوں کو سب سے زیادہ منظم انداز میں نشانہ بنانے کی مہم ہے۔
اب مغربی میڈیا جو ہمیشہ قابض اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا، بھی آہستہ آہستہ اس نسل کشی اور بربادی کو سامنے لا رہا ہے اور صہیونی جھوٹے نعروں جیسے “یہود دشمنی” اور “دفاعِ نفس” کو مسترد کرتے ہوئے اس جنگ کو کھلے عام “جنگی جرائم” اور “اجتماعی قتل عام” قرار دے رہا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف سمیت عالمی عدالتوں نے قابض اسرائیل کو نسل کشی کے مقدمات میں کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے، جبکہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے شہروں میں نکل کر مظاہرے کیے، تعلیمی اور معاشی بائیکاٹ کی مہمات چلائی گئیں اور نامور فنکاروں اور شخصیات نے صہیونی پروپیگنڈا بے نقاب کر دیا۔
جنگی قیدی نہ کہ عام شہری
عیدان کی گرفتاری نے فلسطینی مؤقف کو اور مضبوط کیا۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ اسے جنگ کے دوران ایک مسلح فوجی کے طور پر گرفتار کیا گیا۔ اس لیے وہ جنگی قیدی ہے، نہ کہ “مغوی” جیسا کہ قابض اسرائیل اور اس کا مغربی میڈیا پروپیگنڈا پھیلاتا ہے۔ عیدان اسی فوج کا حصہ تھا جو اکتوبر سے قبل غزہ پر خونریز حملے کر کے ہزاروں فلسطینیوں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی، کو شہید کر چکی تھی۔
یہ معاملہ دوہری شہریت کے فریب کو بھی عیاں کرتا ہے جسے قابض اسرائیل پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب اس کے فوجی گرفتار ہوں تو انہیں امریکی یا جرمن قرار دے کر عالمی ہمدردی حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت میں وہ قابض فوج کے سپاہی ہیں جو قتل، محاصرے اور تباہی کے ذمہ دار ہیں۔
قابض اسرائیل کی اسٹریٹیجک ناکامی
عیدان کی کہانی کو جس طرح قابض اسرائیل اور مغربی میڈیا نے اچھالا اس سے بس ایک ہی بات سامنے آئی کہ قابض اسرائیل اب بھی نسل کشی اور فلسطینی عوام کو کچلنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قابض اسرائیل خونِ فلسطین میں ڈوبا ہوا اور بے مثال اسٹریٹیجک ناکامی کے گڑھے میں پھنسا ہوا ہے اور اب اس کے پاس صرف ایک ہی حربہ بچا ہے کہ اپنے فوجیوں اور ان کے خون کو دوبارہ جھونک کر ایک ایسی جنگ کو طول دے جو ہر سطح پر شکست خوردہ ہے۔