غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں موت اب کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں رہا، بھوک اب صرف ایک سایہ نہیں جو افق پر منڈلائے، بلکہ اعلان شدہ موت ہے۔ یہ موت دھیرے دھیرے مگر بے رحمی سے لوگوں کی رگوں میں اتر رہی ہے۔ یہ گلیوں میں گھومتی ہے، گھروں میں داخل ہوتی ہے، بچوں کی آنکھوں میں چھپتی ہے اور ماؤں کے سینوں پر بوجھ بن کر بیٹھ جاتی ہے، دنیا کی بے حس ضمیروں کو جھنجھوڑے بغیر۔
غزہ میں قحط کے مناظر اب محض اقوام متحدہ کی رپورٹیں یا انسانی حقوق کی تنظیموں کی وارننگز نہیں رہے، بلکہ یہ حقیقت ہے جو ہر روز محصور شہریوں کے سامنے خون آلود تصویر کی طرح کھڑی ہے۔ یہاں موت دھیرے دھیرے لکھی جا رہی ہے اور قابض اسرائیل کا محاصرہ نشانے باز کی گولیوں جیسی درستگی سے نافذ کیا جا رہا ہے۔
اعدادوشمار چیخ رہے ہیں
چار لاکھ ستر ہزار فلسطینی انسان اس وقت حقیقی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ عالمی خوراک کے تحفظ کے پیمانے کی پانچویں اور آخری سطح کے مطابق ہے۔ ان میں اکہتر ہزار معصوم بچے اور سترہ ہزار حاملہ یا دودھ پلانے والی مائیں شامل ہیں۔ یہ اعداد تاریخ کی کتابوں سے نہیں لیے گئے بلکہ گذشتہ مئی کی رپورٹوں سے ہیں اور تب سے صورتحال بہتر نہیں ہوئی بلکہ اور بگڑ چکی ہے۔
جولائی میں یونیسیف اور عالمی ادارہ خوراک نے اعلان کیا تھا کہ قحط کی تمام نشانیاں پوری طرح ظاہر ہو چکی ہیں۔ بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح دوگنی ہو کر 16.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اندازہ ہے کہ 39 فیصد شہری کئی کئی دن بغیر کھانے کے گزارتے ہیں۔
آج قحط کا عذاب صرف شہر غزہ تک محدود نہیں بلکہ زہر کی طرح دیر البلح اور خان یونس میں بھی پھیل رہا ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی جان لیوا بھوک کے شکنجے میں ہیں، ان میں صرف ایک ماہ میں بارہ ہزار بچے شامل ہیں جو شدید غذائی قلت کے باعث بے بس ہو چکے ہیں۔
موت کے لیے گولی ضروری نہیں
خان یونس کے ناصر ہسپتال میں بچوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرا کہتے ہیں: “ہمارے مریض زمین پر لیٹے ہیں… نہ بستر ہیں، نہ مشینیں اور نہ ہی بچوں کا دودھ۔”
جنوبی غزہ میں دس برس سے کم عمر ایک لاکھ بچوں میں سے پچھتر ہزار شدید غذائی قلت کے خطرے میں ہیں۔ آٹھ میں سے دس بچے آلودہ پانی اور حفاظتی ٹیکوں کی کمی کے باعث اسہال میں مبتلا ہیں۔ پروٹین اور وٹامنز تو غزہ کی میزوں سے کئی ماہ پہلے ہی غائب ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی جولائی کی رپورٹ کے مطابق غذائی قلت سے 74 اموات ریکارڈ کی گئیں جن میں 24 بچے پانچ برس سے کم عمر کے تھے۔ آج یہ تعداد بڑھ کر 348 ہو گئی ہے جن میں 127 بچے شامل ہیں۔ یہ وہ معصوم ہیں جنہیں نہ بموں نے مارا نہ گولیوں نے، بلکہ انہیں روٹی اور پانی سے محروم کر کے قتل کیا گیا۔
جرم، آواز اور تصویر کے ساتھ ثابت
غزہ کی یہ بھوک کوئی قدرتی آفت نہیں، یہ ایک منصوبہ بند پالیسی ہے۔ جیسا کہ عالمی ادارے “فورنسک” اور “مؤسّسۃ السلام العالمی” بتاتے ہیں، یہ پالیسی ہے جس کا ہدف آبادی کو بھوک سے توڑ دینا، امدادی نظام کو بکھیر دینا اور ان فلسطینیوں کو نشانہ بنانا ہے جو کھانے کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تک 58 امدادی اجتماعات پر براہ راست بمباری کی جا چکی ہے۔
مارچ 2025ء سے قابض اسرائیل نے تمام گذرگاہیں بند کر دی ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی ترسیل روک دی ہے، جس سے غزہ ایک وسیع جیل میں بدل گیا ہے، جہاں نہ کھانا ہے نہ دوا اور نہ ہی دنیا کو سنانے کے لیے کوئی آواز۔
دنیا خاموش، درد بلند آواز
اقوام متحدہ، یونیسف اور عالمی ادارہ صحت بار بار چیخ چیخ کر مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی امداد “بغیر رکاوٹ” داخل ہونے دی جائے، لیکن یہ آوازیں قابض اسرائیل کے مفادات کے شور میں دب جاتی ہیں اور موت کے سامنے بے اثر ہو جاتی ہیں۔
سات اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ کھلی نسل کشی کی جنگ کا شکار ہے۔ گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کو ملبے میں بدل دیا گیا اور اب اس تصویر کو قحط کے عذاب سے مکمل کیا جا رہا ہے۔
یہ محض انسانی المیہ نہیں بلکہ مکمل جنگی جرم ہے، جو پوری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے اور انسانیت کی بے حسی اسے اور بھی ہولناک بنا رہی ہے۔