Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی
خلاف ورزیاں کر رہی ہے وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حما س کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہاہے۔ دنیا بھر کے زر خرید صحافیوں اور دانشوروں کی اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حما س کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمہ داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہاہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لئے اس کام پر لگایا گیا ہے تا کہ مسئلہ فلسطین کو کمزور کیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لئے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں وہ کئے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شائع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر پاکستان، انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکی کی افواج کو بھیجا جا رہاہے۔ اس خبر میں سب سے زیادہ جو حیرت کی بات ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی فوج کو غز ہ بھیجے جانے کی خبر اسرائیل کا ایک روزنامہ دے رہاہے جبکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس کی کوئی شنید نہیں ہے۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ باقی ذکر کئے گئے ممالک کا کسی نہ کسی طرح اسرائیل کے ساتھ اتحاد ہے لیکن پاکستان کا نام کیوں ؟ اس سوال نے پاکستان میں بھی ہلچل مچا رکھی ہے اور سیاسی ومذہبی حلقوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں یہ سب کچھ ہو رہاہے کہ جب کچھ دن قبل ہی ایک مذہبی جماعت کو ظاہری طور پر اس لئے کالعدم قرار دیا گیا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ مخالف احتجاج کرنا چاہتی تھی حالانکہ حکومت اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں جانتی ہیں کہ وجوہات کچھ اور بھی تھیں۔ ان حالات میں اب پاکستان کی افواج کو غزہ میں امن کے نام پر تعینات کرنے کی بات اسرائیلی اخبارو ں کے ذریعہ پاکستانی شہریوں کو دی جا رہی ہے۔
پاکستا ن کے عوامی حلقوں میں تشویش اس لئے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرسی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انہوںنے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعہ قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے۔لہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان کے عوام کو اس لئے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لئے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس بڑی ذلت اور رسوائی مسلمانوں کے لئے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔
اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملہ پر غور کیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔ٹرمپ کےسابقہ دورِ حکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Centuryکے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وار کیا تھا لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کوامن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام، اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہذا امریکی صدر کے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہئیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کا ز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔ امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کےبھی منافی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستا ن کے علماء او ر مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے ؟کیونکہ ترکی سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں لہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن پاکستان کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہاہے ؟اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل ذلت اور غلامی کے مترادف ہے۔اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزور کریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی بدترین اخلاقی شکست ہوگی۔ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟
خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی ڈھائی کروڑ افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمہ کے احکامات کو بجا لانے کے لئے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے بر عکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے۔اگر کسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے “فریبِ امن” منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔
اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوںیہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت، اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan