غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سرکردہ رہنما باسم نعیم نے قابض اسرائیلی حکام کے ساتھ جنگ بندی کے نئے معاہدے کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ معاہدہ تین مرحلوں پر مشتمل معاہدہ ہے جو 19 جنوری 2025 کو نافذ ہوا تھا اور اس پر مصر، قطر اور امریکی سرپرستی میں دستخط کیے گئے تھے۔
حماس کے سیاسی بیورو کے ایک رکن نے کہا کہ ”نیتن یاہو اور اس کی حکومت جو کچھ موجودہ امریکی انتظامیہ کی حمایت سے کر رہی ہے، وہ جنگ بندی معاہدے کے خلاف ایک واضح بغاوت ہے۔ اس لیے وہ حالات کی خرابی اور دونوں طرف کے لوگوں کی زندگیوں کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔
گذشتہ رات بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیاتھا کہ اسرائیل نے امریکی ایلچی اسٹیون وٹ کوف کی طرف سے ماہ رمضان کے دوران غزہ میں عارضی جنگ بندی اورایسٹر (12-20 اپریل) کی یہودی تہوار کی تعطیل کے لیے تجویز کردہ منصوبے کے وسیع خاکہ سے اتفاق کیا ہے۔
دفتر نے نیتن یاہو کی زیر صدارت سکیورٹی اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں مزید کہا کہ وٹ کوف کی تجویز کے مطابق غزہ میں قید نصف اسرائیلی قیدیوں کے مطابق جو زندہ ہیں باقی کی لاشیں ہیں مجوزہ جنگ بندی کے پہلے دن کے دوران رہا کر دیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مستقل جنگ بندی پر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو غزہ کے باقی نصف قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
باسم نعیم نے کہا کہ قابض اسرائیل “ایک معاہدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے جس سے ہر کسی کے لیےاستحکام اور سلامتی کے بجائے حالات کے مزید کشیدہ ہونے کی راہ ہموار ہوگی‘۔
حماس کے رہنما نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مداخلت کرے اور اسرائیل کو مزید عدم استحکام پیدا کرنے سے روکنے کے لیے دستخط شدہ معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرے۔
جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ ہفتے کی شام ختم ہو گیا تھا، جب کہ دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات معاہدے کے پہلے مرحلے کے 16ویں دن (3 فروری) کو شروع ہونے والے تھے۔