Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کی علامتی بین الاقوامی عدالت نے قابض اسرائیل کو فلسطینی نسل کشی کا مجرم قرار دیا

استنبو ل ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی علامتی بین الاقوامی عدالت نے اپنے چار روزہ اجلاس کے اختتام پر اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف منظم نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے۔ عدالت نے یہ تاریخی فیصلہ اتوار کے روز ترکیہ کے شہر استنبول میں دیا جہاں دنیا بھر سے ممتاز قانونی ماہرین، انسانی حقوق کے علمبردار اور جامعات کے اساتذہ شریک ہوئے۔

یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے سابق نمائندہ برائے فلسطین پروفیسر رچرڈ فولک کی سربراہی میں بند کمرہ اجلاس میں کیا گیا جس میں سنہ2023ء سے جاری قابض اسرائیلی جارحیت کے دوران ہونے والی درندگی پر مشتمل شہادتوں اور دستاویزات کا جائزہ لیا گیا۔

یہ عدالت نومبر سنہ2024ء میں لندن میں قائم کی گئی تھی جسے انسانی حقوق کے ماہرین اور شہری تنظیموں نے اس مقصد سے تشکیل دیا کہ عالمی برادری کے قانونی و اخلاقی نظام کی ناکامی کو بے نقاب کیا جا سکے جو اب تک غزہ کے شہریوں کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔

غزہ میں قابض اسرائیل کی اجتماعی سزا اور نسل کشی کے ٹھوس شواہد

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ قابض اسرائیل نے غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا، شہریوں کو علاج اور طبی امداد سے محروم رکھا اور جبری بے دخلی مسلط کی۔ یہ تمام اقدامات اجتماعی سزا اور نسل کشی کے واضح ثبوت ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی الگ الگ واقعات نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی ہے جو صہیونی نسلی برتری پر مبنی نظامِ نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کے تحت چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی جرائم میں گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور میڈیا دفاتر پر حملے اور فلسطینی قومی شناخت کو مٹانے کی منظم کوششیں شامل ہیں۔

عدالت نے کہا کہ قابض اسرائیل کے یہ جرائم اکتوبر سنہ2023ء سے پہلے شروع ہوئے اور جنگ بندی کے بعد بھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات آنے والی نسلوں تک منتقل ہوں گے۔

امریکہ اور مغربی ممالک بھی اسرائیلی نسل کشی کے شریک

عدالت نے مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ کو غزہ میں جاری قتلِ عام کا شریکِ جرم قرار دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ان حکومتوں نے قابض اسرائیل کو سیاسی، عسکری اور مالی مدد فراہم کر کے نسل کشی میں براہِ راست حصہ لیا۔ عدالت نے کہا کہ خاموشی اور بے عملی بھی جرم میں شمولیت کے مترادف ہے۔

عدالت نے مغربی میڈیا اور جامعات پر بھی سخت تنقید کی جو قابض اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالنے، سچ بولنے والی آوازوں کو دبانے اور فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھنے والوں کو نشانہ بنانے میں ملوث ہیں۔

عدالت نے عالمی انصاف کے نظام کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کر دیں تاکہ وہ قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور سابق وزیرِ دفاع یوآف گالانٹ کے خلاف جاری گرفتاری کے احکامات پر عمل نہ کر سکے۔

قابض اسرائیلی مجرموں کے بین الاقوامی احتساب کا مطالبہ

عدالت نے مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل کے تمام سیاسی، فوجی، اقتصادی اور نظریاتی مجرموں کا قانونی محاسبہ کیا جائے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ قابض اسرائیل کی رکنیت معطل کر کے جنرل اسمبلی کے قرار داد “متحدون من أجل السلام” کو فعال بنایا جائے تاکہ فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی امن فورس قائم کی جا سکے کیونکہ سلامتی کونسل امریکی ویٹو کی وجہ سے مفلوج ہو چکی ہے۔

عدالت نے صہیونی نظام کے خلاف عالمی سطح پر ایک جامع تحریک شروع کرنے کی اپیل کی جس میں سیاست، قانون، معیشت، ثقافت اور تعلیمی میدان شامل ہوں تاکہ اس نسل پرست نظام کو تنہا کیا جا سکے۔

فلسطینی جدوجہد کو انسانیت کا مقدمہ قرار

عدالت نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ ایک علامتی فورم ہے مگر اس کا مقصد انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور قابض اسرائیل کے جرائم کو تاریخ کے ریکارڈ پر ثبت کرنا ہے۔ عدالت نے کہا کہ غزہ کی نسل کشی صرف فلسطینی مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کا امتحان ہے۔

فیصلے میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور مزاحمت کو جائز و فطری قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ فلسطینیوں کی جدوجہد یہود یا یہودیت کے خلاف نہیں بلکہ اس صہیونی نوآبادیاتی منصوبے کے خلاف ہے جو نسل پرستی اور نسلی برتری پر قائم ہے۔

عدالت نے اپنے اختتامی بیان میں کہا کہ انصاف کے قیام اور نسل کشی کے خاتمے کے بغیر فلسطین اور خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan