غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )’ہم نہیں نکلیں گے، ہم مر جائیں گے مگر غزہ شہر سے نہیں نکلیں گے، ہم دوبارہ جنوبی غزہ کی طرف نہیں جائیں گے، یہاں اور وہاں موت ایک ہی ہے، المواصی اور دیر البلح میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو غزہ کے شہری ایک دوسرے سے کہتے ہیں، اس وقت جب قابض اسرائیل انہیں شہر چھوڑ کر وسطی اور جنوبی غزہ جانے پر مجبور کر رہا ہے۔
بمباری، بارود، فائرنگ اور تباہی کے ذریعے قابض اسرائیل اہل غزہ کو بے دخل کرنے پر تلا ہوا ہے، انہیں وسطی کیمپوں اور خان یونس کے المواصی جیسے پہلے ہی بھرے ہوئے علاقوں کی طرف دھکیل رہا ہے۔ مگر عوامی آواز بلند ہو رہی ہے جو انخلا کو مسترد کرتی ہے اور سب کو یہ خوف ہے کہ اگر وہ نکل گئے تو پھر کبھی واپس لوٹنے نہیں دیے جائیں گے۔
شہریوں کا یہ فیصلہ شدید بمباری، توپخانے کی گولہ باری اور نہ تھمنے والے فضائی حملوں سے ٹکرا رہا ہے۔ قابض فوج اب پرانی بکتر بند گاڑیوں کو بارودی مواد سے بھر کر رہائشی علاقوں میں دھماکے سے اڑا دیتی ہے جس سے پورے کے پورے محلے ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔
جبراً داخلی انخلا… مگر روانگی نہیں
ام احمد اپنے اجڑے ہوئے مکان کے ملبے سے بقدر استطاعت ضروری سامان سمیٹتی ہیں۔ شمالی غزہ کے ابو اسکندر علاقے میں ان کے محلے پر قابض اسرائیل نے توپخانے اور فضائی حملوں سے بارش کی جس نے ان کے گھر کو ناقابل رہائش بنا دیا۔
چادریں، کپڑے، بستر اور تکیے وہ اپنے ساتھ اٹھا رہی تھیں، حالانکہ آخری لمحے تک ان کا فیصلہ یہی تھا کہ گھر چھوڑ کر جنوب نہیں جائیں گی۔ مگر اچانک پڑوسی عمارتوں پر بمباری ہوئی جس نے ان کا مکان رہنے کے قابل ہی نہ چھوڑا اور وہ بمشکل جان بچا کر نکلیں۔
ام احمد اپنے شوہر اور پانچ بچوں کے ساتھ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئیں، لیکن وہ جنوب نہیں گئیں بلکہ مغرب کی طرف محلے النصر میں اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی۔ نامہ نگار مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو میں وہ کہتی ہیں کہ وہ غزہ شہر ہی میں رہیں گی اور یہاں سے نہیں جائیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر ہم نکل گئے تو یہ آخری بار ہوگا کہ ہم اپنے شہر کو دیکھیں، قابض اسرائیل ہمیں کبھی واپس نہیں آنے دے گا جیسا کہ رفح، بیت لاهیا اور بیت حانون کے ساتھ ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم مرنا نہیں چاہتے مگر ہمیں موت کا خوف بھی نہیں، کیونکہ یہ زندگی موت سے بدتر ہے۔ ہم روز ہزار بار مرتے ہیں، بچوں کو بچانے کے لیے، انہیں کھانے پینے کی فراہمی کے لیے، دواؤں کے فقدان میں بیماریوں سے بچانے کے لیے ہم ہر روز ہزار بار مرتے ہیں۔
ام احمد کے مطابق قابض اسرائیل کا یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ وسطی یا جنوبی غزہ میں انخلا کے لیے جگہ ہے۔ وہ علاقے پہلے ہی لبالب بھرے ہیں، وہاں کوئی محفوظ جگہ نہیں، ہر طرف بمباری اور آگ ہے۔
نامہ نگار نے مشاہدہ کیا کہ سب سے زیادہ وہ خاندان جنوب کی طرف جانے سے انکاری ہیں جنہوں نے گذشتہ بار انخلا کا تجربہ کیا۔ وہ دوبارہ اس عذاب کو جھیلنے پر تیار نہیں، خواہ اس کی قیمت شہادت ہی کیوں نہ ہو۔
مر جائیں گے مگر المیہ دوبارہ نہیں دہرانا
ابو علی نے دسمبر سنہ2023ء میں دیر البلح ہجرت کی اور جنوری سنہ2025ء میں وقتی جنگ بندی کے دوران واپس غزہ شہر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ انخلا ایک عذاب ہے، وہ اسے کسی صورت دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ذلت کے وہ لمحے جھیلے جو ناقابل بیان ہیں۔ عزت چھن گئی، ہر طرح کی ذلت نے ہمیں گھیر لیا۔ اب دوبارہ یہ سب برداشت ممکن نہیں۔ اگر مرنا ہے تو اپنے گھروں کے پاس مریں گے مگر نکلنا ناممکن ہے۔
نامہ نگار سے گفتگو میں ابو علی نے کہا کہ غزہ میں جو موت ہے وہی دیر البلح یا خان یونس کے المواصی میں بھی ہے۔ انسانی علاقے کا پروپیگنڈہ محض دکھاوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہاں بھی روزانہ شہادتیں ہوتی ہیں بلکہ کہیں زیادہ۔
نئے انخلا کے لیے کوئی جگہ نہیں
حکومتی میڈیا دفتر نے واضح کیا ہے کہ وسطی اور جنوبی غزہ پہلے ہی شدید بوجھ تلے دبے ہیں، وہاں نہ بنیادی ڈھانچہ ہے، نہ خدمات، نہ پانی بجلی اور نہ ہی صحت کی سہولیات۔
دفتر کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کا منصوبہ جبری بے دخلی اور بڑے پیمانے پر انسانی المیہ پیدا کرنا ہے، جو کھلی خلاف ورزی ہے بین الاقوامی قوانین کی۔
حقیقت یہ ہے کہ جنوب میں مزید ایک خیمہ بھی لگانے کی جگہ باقی نہیں۔ دیر البلح کے میئر نزار عیاش نے بتایا کہ ساحلی علاقے مکمل بھرے ہوئے ہیں اور مشرقی علاقے جاری فوجی کارروائیوں کے باعث سراسر غیر محفوظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیر البلح کا انفراسٹرکچر تباہ ہے، پانی کی ڈیسالینیشن پلانٹ ایندھن کی شدید کمی سے محض چند لوگوں کو پانی دے سکتا ہے۔ گذشتہ انخلا کے دوران ماحولیاتی اور صحت کی تباہ کاریاں ہوئیں جو اب کہیں زیادہ شدت سے دہرائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ وسطی علاقوں میں حالات سنگین انسانی المیے کی طرف جا رہے ہیں اگر ان پر مزید دباؤ ڈالا گیا۔
یہ سب حقائق واضح کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل جس انخلا کو مسلط کرنا چاہتا ہے وہ محض ایک اور اجتماعی قتل گاہ ہے، جس میں وہ لوگوں کو دھکیل رہا ہے جو تقریباً دو برس سے نسل کشی کا شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ہے جو اس جنون کو روکے؟