غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر ’اوچا‘ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے بچے شدید بھوک اور غذائی قلت کے باعث دم توڑ رہے ہیں، جبکہ قابض فوج کی جنگی درندگی سنہ 2023ء سے مسلسل جاری ہے۔
دفتر کے مطابق کئی بچے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، اور اگر فوری مدد نہ پہنچی تو مزید بچوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
’اوچا‘ نے کہا کہ کھانے کی تلاش میں نکلنے والے شہری قابض فوج کی گولہ باری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی امداد کو بلا رکاوٹ پہنچنے دیا جائے۔
یہ انتباہ ایک خوفناک حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ قابض اسرائیل کے محاصرے نے غزہ کو ایک سنگین انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے، جہاں لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں۔
قابض اسرائیل نے 2 مارچ 2025ء سے غزہ پر اپنی ناکہ بندی مزید سخت کر دی ہے؛ تمام زمینی گزرگاہیں بند کر دی گئی ہیں اور خوراک، ادویات اور ایندھن کی فراہمی روک دی گئی ہے، جس کے باعث انسانی صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔
غزہ میں قحط پھیل چکا ہے، خاص طور پر بچوں میں، جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
قابض اسرائیلی افواج، امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ، 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں اجتماعی نسل کشی کر رہی ہیں، جس میں اب تک 1,99,000 سے زائد فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 9,000 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ ہولناک مظالم قابض اسرائیل کی جانب سے ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جاری ہیں، جنہیں عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی نے مزید سنگین بنا دیا ہے۔
’اوچا‘ نے زور دے کر کہا ہے: “بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں۔” انہوں نے واضح کیا کہ “بلا تعطل انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا تمام فریقین کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔”