Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’غزہ میں موت تصور سے بھی زیادہ سفاک ہے‘:امریکی ڈاکٹر بھی پھٹ پڑا!

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  غزہ پر مسلط وحشیانہ جنگ اور انسانیت سوز محاصرے کے ماحول میں جہاں ہر لمحہ زندگی موت سے قریب تر ہو چکی ہے، وہیں ایک امریکی ڈاکٹر کی آنکھوں سے بہتی صداقت دنیا کو جھنجھوڑ دینے والی ہے۔

امریکی ڈاکٹر فرحان عبدالعزیز جو طبی رضاکار ٹیم کے ہمراہ غزہ میں موجود ہیں نے دل دہلا دینے والی شہادت دی ہے۔ ان کے مطابق ’غزہ میں جو کچھ دیکھا، وہ انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ تباہی، بھوک اور موت نے ہر دروازے پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اگر انسانیت ابھی بھی زندہ ہے تو اب خاموش رہنا ممکن نہیں‘۔

ڈاکٹر فرحان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں سیاح بن کر نہیں آئے، بلکہ حقیقت کے گواہ بن کر آئے ہیں۔ ہسپتالوں کی راہداریوں میں زخمی کراہتے نظر آتے ہیں، دوائیں نہیں، بستر نہیں، صرف درد ہے۔ وہ لرزتی آواز میں کہنے لگے کہ’’یہاں کے مناظر تصور سے بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ لوگ کسی جرم کے بغیر مر رہے ہیں‘‘۔

ناقابلِ یقین اذیت

ڈاکٹر فرحان نے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں غزہ میں جو کچھ آیا وہ ہر حد سے بڑھ کر ہے۔ ہر طرف بربادی، قحط اور انسانی تباہی کا وہ عالم ہے جو دنیا نے شاید کبھی نہ دیکھا ہو۔

انہوں نے ایک مقامی ڈاکٹروں کے اجتماع میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے مریضوں کو زمین پر پڑے دیکھا، ان کے پاس بستر تھا نہ دوا، یہاں تک کہ معمولی درد کش دوا بھی میسر نہیں۔ ہر مریض میری طرف دیکھ کر کہتا: ’مدد کرو… مدد کرو‘، مگر میں مجبور تھا، میرے ہاتھ خالی تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’غزہ کے شہری فاقہ زدہ ہیں۔ خوراک کی شدید قلت نے ان کے جسموں سے گوشت چھین لیا ہے۔ ہر شخص بھوکا ہے، ہر شخص پکار رہا ہے، لیکن کوئی نہیں سنتا۔ بیرونی دنیا کا کوئی صحافی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں رکھتا، اس لیے سچ دنیا تک نہیں پہنچتا‘۔

ایک گواہ کی عالمی پکار

امریکہ سے آنے والے ڈاکٹر نے مزید کہا: ’’ہم یہاں طبی امداد کے لیے آئے ہیں، مگر اب ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اس نسل کشی کی گواہی دیں۔ انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ مریض کو دوا اور خوراک ملے، مگر اہلِ غزہ سے ان کا سب کچھ چھین لیا گیا ہے‘۔

ڈاکٹر فرحان نے اپیل کی ’یہ محاصرہ کب ختم ہوگا؟ یہ بمباری ، یہ خون، یہ ہجرت کب ختم ہوگی؟ امریکہ کے صدر نے ایک برس قبل کہا تھا کہ رفح سرخ لکیر ہے، مگر آج رفح مکمل طور پر مٹ چکا ہے۔ رفح کے مکین بھوک سے مر رہے ہیں‘۔

انہوں نے روتے ہوئے کہاکہ’کل میرے ہاتھوں میں تین چھوٹے بچے تھے۔ وہ خوراک لینے نکلے تھے، لیکن واپس لاشیں بن کر آئے۔ ان کی مائیں ان پر نوحہ کناں تھیں۔ خدا کی قسم، یہ ایک قیامت ہے۔ دنیا کو حرکت میں آنا ہوگا‘۔

امریکی ڈاکٹر کی دہائی

اپنی بات مکمل کرتے ہوئے ڈاکٹر فرحان نے دنیا سے التجا کی ’’ہم امریکہ میں انسانی حقوق کے علمبردار کہلاتے ہیں، تو پھر غزہ کے بچوں کو مرنے سے کیوں نہیں بچا سکتے؟ راستے کھولو، خوراک، دوا اور طبی سازوسامان کو آنے دو۔ لوگ بلاوجہ مر رہے ہیں، خدا کی قسم بلاوجہ‘‘۔

ہسپتالوں کو بھی نہ بخشا گیا

قابض اسرائیل نے موجودہ جنگ میں جان بوجھ کر غزہ کے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ان ہسپتالوں میں مزاحمتی جماعتیں موجود ہیں، مگر کسی بھی دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا۔ بین الاقوامی صحافتی ادارے ان دعوؤں کو باطل ثابت کر چکے ہیں۔

حالیہ دنوں میں غزہ شہر کے المعمدانی ہسپتال کے ڈائریکٹر فضل نعیم نے کہا کہ ’’ڈاکٹر بھوک سے نڈھال ہیں، نہ کھانے کو کچھ ہے، نہ آرام کا موقع۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ طبی عملہ شدید جسمانی اور ذہنی تھکن کے باوجود زخمیوں کو بچانے میں مسلسل مصروف ہے۔

غزہ کا پورا صحت کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے۔ متعدد ہسپتال قابض اسرائیل کے براہ راست حملوں یا ایندھن اور ادویات کی قلت کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔

نسل کش جنگ مسلسل جاری

قابض اسرائیلی فوج آج مسلسل 664ویں روز غزہ پر وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر دن نئے قتل عام، نئی اجتماعی قبریں اور نئی انسانی المیے لے کر آ رہا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan