بیروت –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) لبنانی اسلامی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے نائب سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت کسی ایسے منصوبے کو ہرگز قبول نہیں کرے گی جس کے تحت قابض اسرائیل کے مسلسل جارحانہ عزائم کے سائے تلے حزب اللہ کو اسلحہ سے محروم کرنے یا لبنان کو اس کی حقیقی قوت سے بے نیاز کرنے کی کوئی سازش کی جائے۔
یہ اعلان انہوں نے منگل کے روز ایک تعزیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جو حزب اللہ کی جانب سے القدس فورس کے فلسطینی امور کے کمانڈر شہید محمد سعید ایزدی المعروف الحاج رمضان کی شہادت کے چالیس روز مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا۔ شہید محمد سعید ایزدی کو حالیہ ایران پر اسرائیلی جنگی جارحیت کے دوران شہید کیا گیا تھا۔
شیخ نعیم قاسم نے اپنی تقریر میں کہا کہ “کوئی بھی ٹائم ٹیبل جو اسلحے کی واپسی کے نام پر قابض اسرائیل کی جارحیت کی چھتری تلے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے ہمیں ہرگز قابل قبول نہیں۔”
انہوں نے لبنانی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی دباؤ اور اسرائیلی دھمکیوں کے سامنے جھکنے کے بجائے، اپنے دفاع کو مضبوط بنائے اور اپنی عوامی مزاحمت کی قوت کو کمزور کرنے کی کسی کوشش کا حصہ نہ بنے۔
انہوں نے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ایلچی دراصل اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے لبنان اور مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے کی منصوبہ بندی لے کر آیا ہے۔ ان کا مقصد واضح ہے کہ لبنانی فوج کے پاس بھی ایسا کوئی ہتھیار نہ ہو جو قابض اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکے۔
منگل کے روز لبنان کی کابینہ کا اجلاس صدارتی محل بعبدا میں ہوا، جس میں ریاستی خودمختاری کے نام پر صرف ریاست کے پاس اسلحے کی موجودگی کو یقینی بنانے کے امریکی مطالبے پر غور کیا گیا۔ اس اجلاس سے چند گھنٹے قبل جنوبی لبنان کی فضا میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کی پروازیں جاری رہیں، جو خطے میں جاری کشیدگی کی غمازی کرتی ہیں۔
لبنانی سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق اجلاس کی صدارت صدر جوزف عون نے کی۔ ایجنڈے میں حکومت کے اعلامیے کے اس حصے پر غور کیا گیا جس میں ریاست کی خودمختاری کو ملک کے تمام علاقوں میں صرف اپنی طاقت سے نافذ کرنے کی بات کی گئی تھی، نیز حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 27 نومبر کو ختم ہونے والی حالیہ جنگ کے بعد کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان مسلسل رابطے جاری ہیں تاکہ اسلحے کے ریاستی کنٹرول کے مسئلے پر کوئی متفقہ فارمولا طے ہو سکے۔ اجلاس سے قبل صدر عون نے وزیر اعظم نواف سلام سے ملاقات بھی کی۔
یاد رہے کہ حزب اللہ لبنان کی وہ واحد مزاحمتی تحریک ہے جس نے 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد بھی اپنے دفاعی و عسکری وسائل کو برقرار رکھا۔ آج یہی قوت جنوبی لبنان میں قابض اسرائیل کے عزائم کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کو اسلحے سے محروم کرنے کا مطالبہ درحقیقت خطے میں اسرائیلی بالادستی کے خواب کی ایک کڑی ہے، جسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ حزب اللہ کی قیادت اور عوام یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر مزاحمت کا ہتھیار چھن گیا تو نہ صرف لبنان کی خودمختاری خطرے میں پڑ جائے گی بلکہ فلسطینی مزاحمت کے لیے بھی یہ ایک کاری ضرب ہو گی۔