نیو یارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی دو بڑی تنظیموں ’یونیسیف‘ اور ’سیو دی چلڈرون‘نے غزہ کی پٹی میں بچوں کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ بچوں کےلیے کوئی “محفوظ جگہ” نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے دیر البلح میں الاقصی شہداء ہسپتال کے صحن میں بے گھر افراد کے خیموں پر اسرائیلی جارحیت پر اپنے رد عمل میں کہاکہ “ہماری اسکرینیں ایک بار پھر بچوں کی تصویروں سے بھر گئیں۔ وہ بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں اور جلائے جا رہے ہیں۔ ان خاندانوں کی تصویریں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جو خیموں سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارے جا رہے ہیں۔
اس تناظر میں سیو دی چلڈرن نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو نسل کشی کی جنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر روز بچوں اور خاندانوں پر حملے “جہنم کی گہرائیوں کی طرح ہیں، کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے”۔
مشرق وسطیٰ میں تنظیم کے علاقائی ڈائریکٹر جیریمی سٹونر نےزور دے کر کہا کہ شمالی غزہ کے رہائشی دو ہفتوں سے خوراک سے محروم ہیں۔ ایسے علاقے میں بمباری کی جا رہی ہے جہاں سے وہ نہیں جا سکتے۔ ان کے لیے کسی طرف انخلاء بھی خطرے سے کم نہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کے قتل کا کیا فوجی مقصد ہو سکتا ہے؟۔ بچوں کے متوقع قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے کولیٹرل ڈیمیج کا تصور استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
اسٹونر نے نشاندہی کی کہ تنظیم نے غزہ کی پٹی کے وسط میں دیر البلح میں پولیو کے قطرے پلانے کا دوسرا دور شروع کیا، جب کہ اس کی ٹیم صرف 500 میٹر کے فاصلے پر قابض اسرائیلی فوج کی بمباری کا سامنا کررہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے کہ یہ بچوں کے خلاف جنگ ہے۔ جنگ بندی کے بغیر یہ ویکسین بچوں کی تکلیف دور نہیں کرسکتی۔
خیال رہے کہ کل سوموار کی صبح وسطی غزہ کے الاقصیٰ شہداء ہسپتال کے صحن میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے خیموں پر اسرائیلی بمباری میں چار فلسطینی شہید اور تقریباً 40 زخمی ہوگئے۔ اس بمباری میں ایک بڑی آگ بھڑک اٹھی جس سے تقریباً 30 خیمے جل کرراکھ ہوگئے۔