مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل نے امریکہ کو اپنے سخت تحفظات سے آگاہ کیا ہے کہ اگر جدید ترین اسٹیلتھ لڑاکا طیارے ایف 35 کی فروخت ترکیہ کو کی گئی، تو خطے میں صرف اسرائیل کی اجارہ داری خطرے میں پڑ جائے گی۔
اسرائیلی اخبار “یدیعوت آحرونوت” نے اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو متعدد پیغامات بھیجے ہیں، جن میں اس مجوزہ سودے پر سخت مخالفت ظاہر کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیل سے خطے میں اسرائیل کی فوجی برتری کمزور ہو سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق اسرائیلی تشویش اس وقت اور بھی بڑھ گئی ہے جب ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے حالیہ مہینوں میں قابض اسرائیل کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ ایردوآن نے قابض اسرائیل کو “دہشت گرد ریاست” قرار دیا اور کہا کہ “اللہ صہیونی اسرائیل کو تباہ کرے”۔ ان بیانات نے قابض اسرائیل کو سفارتی سطح پر پریشان کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے ترکیہ پر سخت تنقید کی تھی اور ایف 35 طیاروں کی فروخت روک دی تھی لیکن موجودہ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ اس پالیسی پر نظرثانی کر رہے ہیں، جس سے قابض اسرائیل کے حلقوں میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے، خاص طور پر جب امریکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کو بھی جدید ہتھیاروں کی فروخت پر غور کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے حالیہ دنوں پارلیمنٹ کی خارجہ اور سکیورٹی کمیٹی کو اس معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل اس مجوزہ ڈیل کے خلاف سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ڈیل کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔
“یدیعوت احرونوت” کا کہنا ہے کہ امریکہ ترکیہ کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے، یہ تشویش بھی بڑھ رہی ہے کہ ٹرمپ اور ایردوآن کے درمیان قریبی تعلقات اس معاہدے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
امریکی ٹی وی چینل “فوکس نیوز” نے 21 مارچ کو اپنی رپورٹ میں دو باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ ترکیہ کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں، اگر دونوں ممالک کے درمیان ایسا معاہدہ ہو جائے جس کے تحت ترکیہ کی ملکیت میں موجود روسی دفاعی نظام “ایس 400” کو ناقابل استعمال بنا دیا جائے۔
فوکس نیوز کے مطابق امریکہ کو اس سودے کے لیے “کیٹسہ” (CAATSA) قانون کے تحت ترکیہ پر عائد پابندیاں ختم کرنا ہوں گی، جو ان ممالک پر لاگو ہوتا ہے جو امریکہ کے حریف ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کرتے ہیں۔