Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، دوا نہیں، کھانا نہیں، زندگی دم توڑ رہی ہے:عالمی ادارہ صحت

جنیوا  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) عالمی ادارۂ صحت کی مشرقی بحرِ متوسط کی علاقائی ڈائریکٹر حنان بلخی نے غزہ کی دل دہلا دینے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں بچے بھوک اور قحط کے ہاتھوں دم توڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کے مسلط کردہ ظالمانہ محاصرے کے باعث قحط اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، جہاں غذا اور دوا کی شدید قلت کے سبب نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

حنان بلخی نے واضح کیا کہ غزہ میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ لوگ انتہائی غیر انسانی اور خطرناک ماحول میں جی رہے ہیں۔ وہاں صفائی کا نام و نشان نہیں، جبکہ صفائی صحت کی بنیاد ہوتی ہے اور جب وہی نہ ہو تو بیماریاں پنجے گاڑ لیتی ہیں۔

انہوں نے ترکیہ کی خبر رساں ایجنسی اناطولیہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ غزہ میں صحت کی سہولیات ختم ہوچکی ہیں۔ صرف چند ہسپتال ہیں جو محدود یا جزوی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اصل مسئلہ وسائل کی شدید کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 41 سے 42 فیصد بنیادی ادویات مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں، جب کہ اتنے ہی تناسب میں اہم ویکسین بھی ناپید ہیں۔ طبی سازوسامان کا 64 فیصد حصہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔

حنان بلخی نے بتایا کہ غزہ میں طبی عملہ ناقابلِ یقین صبر و استقامت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ وہ انتہائی محدود وسائل کے باوجود اپنی پوری کوششیں کر رہے ہیں تاکہ کسی کی جان بچائی جا سکے، کسی بچے کو بھوک سے، کسی ماں کو درد سے اور کسی بزرگ کو تکلیف سے نجات دلائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں مہلک بیماریاں سر اٹھا چکی ہیں، جیسے جلدی امراض، نمونیا، مختلف انفیکشنز اور صدمے کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی مسائل۔ ان سب نے غزہ کے عوام کی زندگی کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہو رہی ہے۔

حنان بلخی نے بتایا کہ عالمی ادارۂ صحت کی 51 امدادی گاڑیاں غزہ کی سرحد پر پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ امداد غزہ کے مستحق عوام تک پہنچائی جا سکے۔ لیکن اسرائیلی رکاوٹیں ان کوششوں کو ناکام بنا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جو محاصرہ 11 ہفتے قبل مزید سخت کیا، اس کے بعد جو تھوڑی بہت خوراک اندر پہنچی، وہ کسی صورت کافی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں لوگ کھانے کے بغیر جی رہے ہیں اور جب انسان کھانا نہ کھائے تو وہ بھوک سے تڑپتا ہے اور بالآخر مر جاتا ہے۔ دوا، علاج اور خوراک کے بغیر غزہ کے لوگ زندہ رہنے کی آخری امیدیں بھی کھو چکے ہیں۔ ان کی حالت چیخ چیخ کر دنیا کو پکار رہی ہے، مگر انسانیت کے کانوں پر جیسے پٹی بندھی ہو۔

2 مارچ 2023ء سے اسرائیل نے 24 لاکھ فلسطینیوں پر منظم بھوکا مارنے کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ غزہ کی تمام گزرگاہیں بند ہیں، جہاں امدادی سامان کے ٹرک قطاروں میں کھڑے ہیں، لیکن انہیں داخل ہونے نہیں دیا جاتا۔ اس قحط نے سینکڑوں زندگیاں نگل لی ہیں اور ہزاروں کو موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

قابض اسرائیل نے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی امدادی اداروں کو مکمل طور پر اس عمل سے باہر نکال دیا ہے، اور امداد کی محدود تقسیم ایک ایسی “غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” کے سپرد کر دی ہے جو اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ ہے، مگر اقوامِ متحدہ اسے تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کو جنوبی علاقوں میں دھکیل کر شمالی غزہ کو خالی کرانا ہے۔

مگر اس مجرمانہ منصوبے کو خود فلسطینی عوام نے ناکام بنا دیا۔ اس ہفتے منگل اور بدھ کو بےبسی کی انتہا کو پہنچے ہوئے فلسطینیوں نے امداد کے مرکز پر دھاوا بول دیا۔ اس پر قابض فوج نے فائرنگ کی، تین نہتے فلسطینی شہید اور 46 زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد یہ ادارہ اپنا کام “عارضی طور پر” روکنے پر مجبور ہو گیا۔

سات اکتوبر 2023ء سے اسرائیل نے غزہ میں جو نسل کشی کی مہم شروع کی، وہ صرف بموں اور گولیوں کی جنگ نہیں بلکہ ایک مکمل انسانیت سوز منصوبہ ہے۔ اس میں قتل، قحط، تباہی، جبری نقل مکانی سب کچھ شامل ہے اور اسرائیل نے دنیا بھر کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan