غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) میں ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم “ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” کی ٹیم کی سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ کی طبی صورتحال نہایت ابتر ہے اور کسی قسم کے وسائل یا ضروری سامان میسر نہیں۔
انہوں نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں قحط کے باضابطہ اعلان کے بعد بھی کوئی پیش رفت یا عملی اقدام سامنے نہیں آیا، شہری اب بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔
یاد رہے کہ 22 اگست کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام “خوراک کی سکیورٹی کے مرحلہ وار نظام” نے باضابطہ طور پر غزہ میں قحط کے پھیلنے کا اعلان کیا تھا۔
اس ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں پانچ لاکھ سے زائد انسان انتہائی المناک حالات سے دوچار ہیں، جو اس درجہ بندی کے پانچویں اور سب سے خطرناک درجے میں آتے ہیں۔ اس مرحلے کی خصوصیات شدید بھوک، موت، کسمپرسی اور بچوں میں شدید ترین غذائی قلت کی سطح ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ 2 مارچ سے قابض اسرائیل نے غزہ کے تمام زمینی راستے بند کر رکھے ہیں، جس کے باعث غذائی امداد، طبی سامان، اشیائے ضرورت اور ایندھن تک غزہ میں داخل نہیں ہو پا رہا، نتیجتاً انسانی المیہ مزید گہرا ہو گیا ہے۔
قابض اسرائیلی فوج نے امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر بدترین جارحیت مسلط کر رکھی ہے۔ اس نسل کشی میں اب تک دو لاکھ تئیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے جبکہ نو ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔