Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

تاریکی غزہ کے عوام کی ایک اور اذیت، ’موبائل بند

غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )غزہ کی سرزمین پر جاری قیامت خیز حالات میں جہاں ہر لمحہ قابض اسرائیل کے وحشیانہ قصف، تشرید اور اجتماعی قتل عام کے زخم تازہ کیے جا رہے ہیں، وہیں بجلی کی مسلسل بندش ایک اور گھاؤ کی طرح فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنا رہی ہے۔

یہ تاریکی صرف روشنی کے فقدان کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے اطمینان سے محرومی، سکیورٹی کا کھو جانا اور دنیا سے جڑنے والے واحد رشتے کا ٹوٹ جانا ہے۔

رات کا عذاب

لاکھوں بے گھر فلسطینی خیموں، ملبے تلے گرے مکانات اور اجڑی کھیتوں میں پناہ گزین ہیں۔ ان کے لیے رات کا مطلب صرف سورج کا غروب ہونا نہیں بلکہ ایک ایسا کربناک اندھیرا ہے جو گھنٹوں پر محیط ہو کر ان کے اعصاب کو مفلوج کر دیتا ہے۔

بچے خوف کے سائے میں کانپتے ہوئے سوتے ہیں، عورتیں اپنے معصوم بچوں کو دیسی طریقوں سے بہلانے کی کوشش کرتی ہیں اور بزرگ ہاتھ میں لاٹھی یا پھر کسی نیم مردہ موبائل کی ٹمٹماتی روشنی سے راستہ ڈھونڈتے ہیں۔

وہی موبائل فون جو کبھی تفریح یا روزگار کا ذریعہ تھا آج حیات کی ڈور بن چکا ہے۔ اسی کی روشنی سے راستہ ملتا ہے، اسی کے ذریعے استغاثے کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اسی سے خبریں یا عزیز و اقارب کی خیریت معلوم کی جاتی ہے۔ لیکن بیٹری کے ختم ہوتے ہی یہ ڈور بھی ٹوٹ جاتی ہے اور یوں زندگی ایک دم رُک جاتی ہے۔

شمالی غزہ سے بے گھر ہو کر دیرالبلح آنے والے محمد مقداد کہتے ہیں کہ “جب میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میں زندگی سے کٹ گیا ہوں۔ نہ اہل خانہ کی خیریت پوچھ سکتا ہوں نہ خیمے کو روشن کر سکتا ہوں۔ سب کچھ یکدم ختم ہو جاتا ہے۔”

پرانی سولر پلیٹوں یا چند بیٹریوں سے بنائے گئے عارضی چارجنگ پوائنٹس زیادہ دیر نہ چل سکے۔ یہ سہولت چند گھرانوں کے لیے تھی لیکن اب وہاں سیکڑوں لوگ قطاروں میں لگتے ہیں۔ بسا اوقات ایک دن کی باری لگتی ہے اور پھر بھی یہ یقین نہیں کہ موبائل آن ہوگا یا نہیں۔

بریج کیمپ کے محمود ریحان بتاتے ہیں کہ “مشینیں جواب دے رہی ہیں۔ چارجروں کا ایک ایک کر کے جل جانا عام ہوگیا ہے۔ لوگ قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، بعض تو اپنی باری نہ کھونے کے لیے وہیں سو جاتے ہیں۔ دن بھر رابطہ ممکن نہیں ہوتا اور رات کو اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں”۔

شیخ رضوان کی صفاء الاستاذ کہتی ہیں کہ “میرے بچے اندھیرے میں سوتے ہیں۔ کئی دن سے فون چارج نہ کر سکی ہوں، بیٹیوں سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہمارے ہاتھ کا ٹارچ بھی ختم ہو چکا ہے، زندگی میں کوئی روشنی باقی نہیں رہی۔”

دیرالبلح کی منڈی میں محمد ابو العطا نے چارجنگ پوائنٹ قائم کیا تھا لیکن اب وہ بھی مجبور ہیں: “رش نے میری سولر پلیٹیں اور بیٹریاں تباہ کر دیں۔ بجلی اتنی غیر مستحکم ہے کہ کبھی فون چارج ہونے کے بجائے جل جاتا ہے۔ شاید مجھے یہ پوائنٹ بند کرنا پڑے۔”

زندگی کے ہر پہلو پر اثرات

یہ بحران صرف رابطے اور روشنی تک محدود نہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کو محفوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ ہسپتال اور طبی مراکز تباہی کے دہانے پر ہیں۔ پانی کی سپلائی تک معجزاتی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔

خان یونس کے قریب خیمے میں مقیم ابو خالد اپنے بچوں کے کرب کا حال یوں بیان کرتے ہیں: “میرے چھوٹے بچے سونے سے پہلے مجھ سے روشنی مانگتے ہیں۔ مجبوراً میں خیمے کے باہر آگ جلاتا ہوں تاکہ انہیں کچھ تسلی ہو جائے۔ مگر دھواں ان کے لیے نئی اذیت بن جاتا ہے۔”

ان حالات میں کچھ نوجوان پرانی گاڑیوں کی بیٹریوں سے عارضی چارجنگ کا انتظام کرتے ہیں، کچھ چھوٹے پیمانے پر توانائی کے تجربات کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب وقتی اور کمزور تدابیر ہیں جو ضرورت کے بوجھ تلے فوراً دم توڑ دیتی ہیں۔

یہ منظر ثابت کرتا ہے کہ روشنی محض مادی ضرورت نہیں بلکہ انسانی اور روحانی ضرورت ہے۔ مسلسل اندھیرا خوف اور ذہنی دباؤ کو بڑھاتا ہے اور فلسطینیوں کی تنہائی کو کئی گنا گہرا کر دیتا ہے۔

غزہ میں بیٹری بجھنا امید کے بجھنے کے مترادف ہے اور چراغ کا بجھنا ایک نہ ختم ہونے والی طویل اور سرد رات کا سامنا ہے۔

سوال مگر اپنی جگہ قائم ہے: ایک محصور شہر کیسے تاریکی کے اس سمندر میں زندگی کی رمق قائم رکھ سکتا ہے؟ انسان کس طرح بغیر روشنی، بغیر رابطے اور بغیر امید کے جیتا ہے؟

غزہ، جو بمباری اور بھوک کے سامنے صبر و صمود کی دیوار بنا کھڑا ہے، اب ایک اور ہولناک معرکے میں ہے: یہ ہے روشنی کا معرکہ، یہ ہے بقا کی جنگ جو بجلی کی آخری سانسوں کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan