غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی فضاؤں میں دھماکوں کی گونج اور مٹی دھول کی گھٹن میں، درجنوں نوزائیدہ اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ قابض اسرائیل کی نسل کش جنگ نے غزہ کی ہسپتالوں کو ماتم کدہ بنا دیا ہے جہاں نرسری کے وارڈ انسانیت کے سب سے بڑے المیے کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
جنوبی غزہ میں ناصر میڈیکل کمپلیکس کے تحت کام کرنے والے التحریر ہسپتال میں ایک ہی بستر پر تین تین بچے سانس لینے کے لیے باری باری آکسیجن کی قلیل خوراک پر زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہسپتال کے راہداریوں میں مائیں زمین پر بیٹھی ہیں، اپنے ان بچوں کے ساتھ جو ابھی زندگی کا مفہوم نہیں جانتے لیکن سانس کی تنگی اور مشینوں کی بیہوش آوازیں ان کے کانوں میں مسلسل بج رہی ہیں۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد الفرا کا کہنا ہے کہ ہم خطرناک لہر کا سامنا کر رہے ہیں، زیادہ تر مریض نومولود ہیں جو ایک ماہ کے بھی نہیں ہوئے۔ بستروں کی شدید کمی ہے، کئی بچوں کو زمین پر لٹانا پڑتا ہے اور کبھی تین بچے ایک ہی بستر پر پڑے ہوتے ہیں۔
مہلک کمی اور ناکافی علاج
المیہ جگہ کی تنگی تک محدود نہیں بلکہ مہلک دوائیوں اور آکسیجن کی قلت تک جا پہنچا ہے۔ زندگی کے اس آخری سہارا کو بھی سب کے لیے دستیاب نہیں رکھا جا سکتا، صرف سب سے نازک حالت والے بچوں کو ملتا ہے۔ کئی ماؤں کی آنکھوں کے سامنے ان کے معصوم بچے بغیر کسی سہارا کے دم گھٹنے لگتے ہیں۔
خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس میں دہلا دینے والے مناظر ہیں۔ بستروں کی گنجائش ہے نہ دوا۔ بچے راہداریوں اور کمروں میں زمین پر پڑے ہیں، والدین فرش پر بیٹھے اپنے ننھے فرشتوں کی سانسیں گنتے ہیں۔
ڈاکٹر الفرا کا کہنا ہے کہ کئی بچے مکمل طور پر سانس لینے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں لیکن ہمارے پاس ناکافی وینٹی لیٹرز ہیں۔ ڈاکٹر اور نرسیں دباؤ میں ہیں، مریضوں کی بھیڑ بیماریوں کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
یہ بحران سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری صہیونی جارحیت اور گھٹن زدہ محاصرے کا نتیجہ ہے۔ قابض اسرائیل اب تک 38 ہسپتال اور 96 ہیلتھ سینٹر تباہ کر چکا ہے، 197 ایمبولینس گاڑیاں نشانہ بنائی گئی ہیں۔ مارچ سے بند سرحدی گذرگاہوں نے دوائیوں اور طبی امداد کو عملاً روک دیا ہے۔
“میرا بچہ کیوں؟”
التحریر ہسپتال میں 32 سالہ ماں ریم اپنے دو ہفتے کے نومولود محمود کے پاس بیٹھی ہے جس کا نحیف جسم وینٹی لیٹر سے جڑا ہے۔ ریم رو کر کہتی ہےکہ محمود نے ابھی دنیا دیکھی ہی نہیں، اسے سانس لینے کے لیے ہر وقت مشین چاہیے۔ اس کا کیا قصور ہے کہ وہ اس جنگ میں پیدا ہوا؟ میں ہر لمحہ اسے کھونے کے خوف میں ہوں۔
باہر راہداریوں میں درجنوں والدین اپنے بچوں کو بستر یا آکسیجن ملنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ تاخیر کا ہر لمحہ ایک نئی جان کے بجھنے کا خطرہ ہے۔
قبل از وقت ولادت میں اضافہ
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک قبل از وقت ولادتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ نفسیاتی دباؤ، غذائی قلت اور خوف کے سائے میں مائیں ایسے بچے جن رہی ہیں جو نرسری اور جدید سہولتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
ڈاکٹر الفرا خبردار کرتے ہیں کہ جنگ نے ایک نئی نسل کو پیدا کر دیا ہے جو بیماریوں اور بدترین غذائی قلت کا شکار ہے جبکہ صحت کا پورا ڈھانچہ تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔
کچھ روز قبل دو ماہ کا بچہ عید ابو جامع ناصر میڈیکل کمپلیکس میں بھوک اور دوائیوں کی کمی سے دم توڑ گیا۔ یہ واحد کہانی نہیں، بلکہ ایسے سینکڑوں بچے فہرستِ موت پر محصور ہیں۔
وباؤں کا طوفان
انروا کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 فیصد سے زائد غزہ کے باشندے بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں 70 ہزار بچے شامل ہیں۔ نومولود بچوں میں بیماریوں اور نقائص میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
وزارت صحت نے انکشاف کیا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 20 لاکھ سے زائد متعدی امراض کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور 71 ہزار سے زیادہ ہیپاٹائٹس کے مریض سامنے آئے ہیں۔ بھوک اور غذائی قلت سے 440 فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں 147 بچے شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اور ریڈ کراس بار بار متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر قابض اسرائیل کا محاصرہ جاری رہا تو صحت کا نظام مکمل طور پر ڈھے جائے گا لیکن عالمی انتباہات کو صہیونی درندگی نے کبھی خاطر میں نہیں لایا۔
موت اور زندگی کے درمیان
ماؤں کے چہرے تھکن اور خوف سے بھرے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو گود میں لے کر لوریاں دیتی ہیں تاکہ درد کچھ ہلکا ہو۔ ڈاکٹر اور نرسیں محدود وسائل کے باوجود ہر سانس بچانے کی جدوجہد میں ہیں۔
ڈاکٹر الفرا کی آخری بات دل کو چیر دیتی ہے: بچوں کو صرف اس لیے سزا نہیں دی جا سکتی کہ وہ غزہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں بھی حق ہے کہ وہ صاف بستر پر سوئیں، سانس لیں اور ایک مستقبل دیکھیں جو جنگ سے پاک ہو۔