نیویارک (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہال میں ایک منفرد اور تاریخی منظر دیکھنے میں آیا جب قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی جنرل اسمبلی میں تقریر شروع ہونے سے قبل ہی درجنوں سفارتی وفود اجتماعی طور پر ہال سے نکل گئے، جس کے باعث ہال تقریباً خالی دکھائی دینے لگا۔ یہ منظر دنیا بھر میں قابض اسرائیل کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور غزہ میں جاری جنگی جرائم کے خلاف عالمی برادری کے شدید ردعمل کی علامت بن گیا۔
تصاویر اور ویڈیوز میں واضح طور پر دکھائی دیا کہ جیسے ہی نیتن یاھو تقریر کے لیے اسٹیج پر پہنچا تو بڑی تعداد میں نمائندے اپنی نشستیں چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ ہال میں صرف اسرائیلی وفد اور چند ایک نمائندے باقی رہ گئے۔
عبرانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق صہیونی چینل 12 نے اس اجتماعی بائیکاٹ کو دنیا کی نگاہوں میں قابض اسرائیل کی منفی اور نفرت انگیز شبیہ قرار دیا، جب کہ دیگر اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس صورتحال کو نیتن یاھو کے لیے “بین الاقوامی سطح پر ایک ذلت آمیز شرمندگی” قرار دیا۔
اس دوران جنرل اسمبلی کے صدر نے ہال میں موجود وفود کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: “براہ کرم قواعد کا احترام کریں، اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں”، مگر اکثریت نے ان کی بات ان سنی کرتے ہوئے ہال چھوڑ دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطینی مشن نے نیویارک میں مختلف وفود کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں انہیں نیتن یاھو کی تقریر کے آغاز پر منظم طور پر ہال چھوڑنے کی اپیل کی گئی تھی تاکہ دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جا سکے کہ عالمی برادری فلسطینی عوام کی نسل کشی، جنگی جرائم اور غیر قانونی قبضے میں شریک نہیں۔
عبرانی ویب سائٹ “والا” کے مطابق فلسطینی پیغام میں کہا گیا تھا کہ تمام وفود صبح سے ہی کثیر تعداد میں اجلاس میں شریک ہوں اور جیسے ہی نیتن یاھو تقریر کے لیے اسٹیج پر آئے تو اجتماعی طور پر ہال سے باہر نکل جائیں تاکہ یہ منظر ریکارڈ ہو اور عالمی رائے عامہ تک پہنچے۔
نیتن یاھو کے خطاب کے دوران نیویارک اور کئی امریکی شہروں میں غزہ کے حق میں اور قابض اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے۔ ہزاروں مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: “جنگ بند کرو” اور “قابض اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ بنایا جائے”۔ مظاہرین نے نیتن یاھو کو جنگی مجرم قرار دیتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت میں اس کے محاکمے کا مطالبہ کیا۔
قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے امریکہ اور یورپی حمایت کے سائے تلے غزہ پر وحشیانہ نسل کشی کی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ اس میں نہ صرف قتل عام اور قحط شامل ہے بلکہ تباہی، جبری بے دخلی اور گرفتاریاں بھی جاری ہیں، حالانکہ عالمی عدالت انصاف اسے روکنے کے احکامات جاری کر چکی ہے۔
اب تک اس نسل کشی میں 2 لاکھ 31 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ 11 ہزار سے زیادہ فلسطینی لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ بھوک اور قحط نے درجنوں خاندانوں کی زندگیاں نگل لی ہیں، زیادہ تر شہادتیں بچوں کی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ کی بیشتر بستیاں اور شہر ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے ہیں۔