Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

موت قبول مگر اپنے گھر نہیں چھوڑیں گے:غزہ

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  غزہ آج اپنی تاریخ کے بدترین ادوار میں سے ایک سے گزر رہا ہے۔ قابض اسرائیل کا وحشیانہ فوجی حملہ شہر کے محلے محلے کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس کے باسیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود لاکھوں فلسطینی اپنے شہر سے جڑے ہوئے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین نہیں چھوڑیں گے تاکہ دشمن کے تباہی اور قبضے کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے۔

سرکاری دفتر برائے اطلاعات کے مطابق تقریباً نو لاکھ فلسطینی تاحال شہر کے اندر محصور ہیں۔ وہ پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں، اوپر سے نہ ختم ہونے والے بمباری کے سائے میں ہر لمحہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا اصرار ہے کہ ان کی موجودگی ہی قابض صہیونی ریاست کے مکروہ منصوبوں کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

آگ اور بارود کے بیچ ہجرت

غزہ کے کئی مکین اپنے گھروں کو چھوڑنے سے انکاری ہیں حالانکہ بمباری شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ شہری وسطی یا جنوبی علاقوں کی طرف جانا چاہتے ہیں مگر تین ہزار امریکی ڈالر سے زائد کرایہ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ دوسری طرف قابض اسرائیل مسلسل جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ شہر میں چند ہی لوگ بچے ہیں اور وہ شہر کی تباہی و قبضے تک حملے جاری رکھے گا۔

مقامی ذرائع کے مطابق آبادی کا دباؤ اس وقت الشاطئ کیمپ کے جنوبی حصے اور محلہ النفق میں ہے۔ اس کے علاوہ الصحابہ، الشعبیہ، السامر اور مفرق السرايا میں بھی لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ ٹینک شیخ رضوان اور النصر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

شہادت اور درد کی داستانیں

تل الہوا محلے میں عبد اللہ البیطار اپنے 16 افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ ایک عمارت کے نچلی منزل پر پناہ گزین تھے کہ اوپر کے حصے پر بمباری ہوئی۔ وہ ملبے سے نکل کر اردنی ہسپتال پہنچے لیکن طبی عملہ بھی بمباری کے باعث کام بند کر چکا تھا۔ وہ مزید 22 خاندانوں کے ساتھ 24 گھنٹے تک محصور رہے اور پھر رات کے وقت النصیرات منتقل ہوئے۔

دوسری طرف مروان العشی (67 برس) اور اس کے بیٹے ہانی (38 برس) شہید ہو گئے۔ وہ نقل مکانی کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک ڈرون نے انہیں نشانہ بنایا جب وہ زخمی ہمسایوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے اہل خانہ بتاتے ہیں کہ وہ شہر چھوڑنے سے قبل اپنے کاروبار کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن قابض اسرائیل کے طیاروں نے انہیں راستے ہی میں شہید کر دیا۔

قحط، پیاس اور بے بسی

جو خاندان شہر میں رکے ہیں ان کی مشکلات بمباری سے کم نہیں۔ پانی صاف کرنے والے پلانٹ یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا جنوبی حصے میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔ پانی کی گاڑیاں غائب ہیں اور لوگ کئی کلومیٹر پیدل چل کر صرف ایک گیلن پانی بھرنے پر مجبور ہیں۔

مارکیٹیں تقریباً بند ہیں۔ الشاطی بازار میں ہلکی سی چہل پہل نظر آتی ہے، سراج اور صحابہ بازار میں بھی معمولی سرگرمی ہے مگر بنیادی ضروریات عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔

النصر محلے کی ضعیف فلسطینی خاتون حلیمہ العشی کہتی ہیں “حالات ناقابل برداشت ہیں، موت کی بو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ڈرون کسی بھی حرکت کرتی چیز پر گولیاں برساتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ چلنے کی طاقت ہے نہ ہجرت کے لیے پیسے۔ جو نکلے ہیں انہوں نے اپنا فرنیچر یا موبائل بیچ کر راستہ بنایا۔ ہم موت اور بے بسی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔”

شہر جو سو نہیں رہا

غزہ میں بمباری رات دن جاری ہے۔ شمال مغربی علاقے کے محمد مقداد کہتے ہیں “فضائی حملوں نے رات کو دن میں بدل دیا ہے۔ ہر رات پچھلی رات سے زیادہ خوفناک ہوتی ہے۔ عمارتیں مکینوں کے اوپر دھماکوں سے مسمار ہو رہی ہیں۔ میں نے اپنے پڑوسیوں کو جاتے دیکھا جو کچھ سامان لینے نکلے تھے مگر کبھی واپس نہ آئے۔”

امدادی ٹیموں کی بے بسی

ایمبولینس اور سول ڈیفنس کی ٹیمیں بمباری کے دباؤ اور محاصرے کے باعث بے بس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھاری مشینری نہ ہونے کی وجہ سے کئی شہداء اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہیں۔ انہیں ہر لمحے الشاطئ کیمپ اور دیگر محاصرے والے علاقوں سے مدد کی دہائیاں موصول ہوتی ہیں مگر وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan