Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

دنیا بھر میں حماس کے فیصلے کا خیرمقدم

دنیا (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) بھر میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے اس تاریخی اور مثبت ردعمل کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا جا رہا ہے جو اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر دیاہے۔ عالمی رہنماؤں نے اس موقع پر مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ایسے عملی اقدامات کیے جائیں جو تقریباً دو برس سے جاری غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگ کے عذاب کو ختم کر سکیں۔

گذشتہ روز جمعہ کو حماس نے ایک باضابطہ بیان میں امریکی صدر کے مجوزہ منصوبے پر اپنا جواب پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں اور ان کی لاشوں کی واپس پر آمادہ ہے، اور اس سمجھوتے پر عمل درآمد کے لیے ثالثوں کے ذریعے فوری مذاکرات پر تیار ہے۔

حماس نے اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس موقف کی تجدید کی کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کو ایک قومی اتفاق رائے سے تشکیل پانے والی آزاد فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر تیار ہے، بشرطیکہ اسے عرب و اسلامی حمایت حاصل ہو۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے جواب کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’بڑی شدت سے اس لمحے کا منتظر ہے جب تمام قیدی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ ایک غیر معمولی دن ہے، شاید بہت سے حوالوں سے تاریخ ساز لمحہ ہے‘‘۔

ترکیہ کے صدر طیب ایردوآن نے حماس کے ردعمل کو ’’غزہ میں مستقل امن کے قیام کی جانب ایک مثبت اور تعمیری قدم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اب ذمہ داری قابض اسرائیل پر ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی تمام جارحانہ کارروائیاں بند کرے اور جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’غزہ تک انسانی امداد کی ترسیل اور پائیدار امن کے قیام کے لیے تمام ضروری اقدامات مزید تاخیر کے بغیر کیے جانے چاہئیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس نسل کشی اور اس شرمناک منظر کا خاتمہ ہو جو عالمی ضمیر کو مسلسل مجروح کر رہا ہے‘‘۔

صدر ایردوآن نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ترکیہ فلسطینی عوام کے مفاد میں مذاکرات کے کامیاب اختتام اور دو ریاستی حل کے نفاذ تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔

فرانس کے صدر عمانویل میکروں نے کہا کہ ’’غزہ میں تمام قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا امکان قریب ہے‘‘۔ انہوں نے زور دیا کہ ’’حماس کو اپنے عہد پر فوری عمل کرنا چاہیے، کیونکہ اب ہمارے پاس امن کے حصول کا ایک فیصلہ کن موقع ہے‘‘۔

برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے بھی امریکی منصوبے کو حماس کی جانب سے قبول کیے جانے کو ’’ایک اہم پیش رفت‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اب تمام فریقین کو اس معاہدے پر فوری عمل درآمد کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے جنگ کے خاتمے، قیدیوں کی واپسی اور ضرورت مندوں تک انسانی امداد کی فراہمی کا موقع پیدا ہوا ہے‘‘۔

جرمن چانسلر فریڈرک میرٹز نے اس فیصلے کو ’’غزہ کے لیے امن کی بہترین امید‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’قیدیوں کی رہائی اور امن اب قریب ہیں۔ حماس کو اپنے ہتھیار ڈالنے چاہئیں، جنگ فوراً رکنی چاہیے اور یہ سب جلد ہونا ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’قریباً دو سال بعد یہ امن کے لیے سب سے بہتر موقع ہے، اور جرمنی اس عمل میں بھرپور کردار ادا کرتا رہے گا‘‘۔

اطالوی وزیرِاعظم جارجیا میلونی نے کہا کہ ’’تمام فریقین کی اولین ترجیح اب ایک ایسے جنگ بندی معاہدے تک پہنچنا ہونا چاہیے جو تمام قیدیوں کی فوری رہائی کو یقینی بنائے‘‘۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی حماس کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ کریں۔

آئرلینڈ کے وزیرِاعظم مائیکل مارٹن نے کہا کہ ’’حماس کے امریکی منصوبے پر مثبت ردعمل سے امید پیدا ہوئی ہے کہ جنگ بندی کے راستے کھلیں گے اور غزہ کے مظلوم عوام تک امداد کی فراہمی میں اضافہ ہوگا‘‘۔

آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انٹونی البانیز نے کہا کہ ’’ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں ہونے والی پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے یقین دلایا کہ آسٹریلیا جنگ کے خاتمے اور دو ریاستی حل پر مبنی پائیدار انصاف کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔

کینیڈا کے وزیرِاعظم مارک کارنی نے بھی حماس کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’حماس کا اقتدار چھوڑنے اور تمام قیدیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرنا خوش آئند ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’تمام فریقوں کو اپنے وعدوں پر عمل کر کے خطے میں امن و استحکام کو مضبوط کرنا چاہیے‘‘۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan