مقبوضہ بیت المقدس۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کے وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے سامنے چھ سرخ لکیریں رکھ دی ہیں جنہیں عبور کرنا اس کے نزدیک ناممکن ہے۔ یہ شرطیں نیتن یاھو کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متوقع ملاقات سے قبل رکھی گئی ہیں جس میں ٹرمپ کی جانب سے غز ہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے پیش کردہ منصوبے پر بات ہونی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ آج پیر کی شام وائٹ ہاؤس میں نیتن یاھو سے ملاقات کریں گے جس میں وہ اپنا اکیس نکاتی منصوبہ زیر بحث لائیں گے۔ یہ منصوبہ انہوں نے گذشتہ منگل عرب اور اسلامی ممالک کے بعض رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں پیش کیا تھا۔ منصوبے کا مقصد دو برس سے جاری غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی کو کسی نہ کسی معاہدے کے ذریعے ختم کرنا بتایا جا رہا ہے۔
سموٹریچ نے امریکی پلیٹ فارم “ایکس” پر اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ حماس کو غزہ سے مکمل طور پر نکالا جائے اور اس کی زیر زمین و زمینی مزاحمتی ڈھانچے کو پوری طرح تباہ کیا جائے۔
اس نے مزید کہا کہ دوسری شرط یہ ہے کہ اسرائیلی فوج ہمیشہ غزہ کے اطراف موجود رہے گی، اس میں صلاح الدین محور (فلاڈیلفیا روٹ) بھی شامل ہے، اور فوج کو پورے غزہ میں بلا رکاوٹ کارروائی کا حق حاصل ہوگا۔ تیسری شرط کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں آج یا کل کبھی کوئی کردار نہیں دیا جائے گا، نہ براہ راست نہ بالواسطہ۔
چوتھی شرط میں اس نے ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ فلسطینی ریاست کا کوئی ذکر تک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ قابض اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس نے کہا کہ “فلسطینی ریاست کے تصور کو ہمیشہ کے لیے میز سے ہٹا دینا چاہیے”۔
حال ہی میں ستمبر کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال، لکسمبرگ، بیلجیم، انڈورا، فرانس، مالٹا، موناکو اور سان مارینو سمیت گیارہ ممالک نے فلسطین کو ریاست تسلیم کیا جس کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد 193 میں سے 159 تک پہنچ گئی ہے۔
پانچویں شرط میں سموٹریچ نے کہا کہ غزہ میں قطر کا کوئی کردار ہرگز قبول نہیں ہوگا۔
چھٹی اور آخری شرط میں اس نے فلسطینیوں کے جبری انخلا کی راہ ہموار کرتے ہوئے کہا کہ “غزہ اب ایسا قید خانہ نہیں رہے گا جہاں لوگوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے قابض اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے لیے رکھا جائے۔ جو جانا چاہے وہ مصر کے راستے غزہ چھوڑ سکتا ہے”۔
ٹرمپ کی تجویز کے مطابق فوری طور پر فوجی کارروائیاں بند کی جائیں، 48 گھنٹوں میں تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ایک بین الاقوامی اور فلسطینی ادارہ غزہ کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالے مگر حماس کو شامل نہ کیا جائے۔ یہ تفصیلات امریکی اخبار “واشنگٹن پوسٹ” نے شائع کی ہیں۔
قابض اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں اس کے 48 قیدی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 زندہ ہیں جبکہ اس نے اپنی جیلوں میں تقریباً 11 ہزار 100 فلسطینی قید کر رکھے ہیں جنہیں تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور متعدد اسی ظلم کا شکار ہو کر شہید ہو چکے ہیں۔
حماس بارہا اعلان کر چکی ہے کہ وہ جزوی یا مکمل قیدیوں کے تبادلے پر تیار ہے مگر نیتن یاھو اپنی ضد اور غزہ پر جاری قتل عام کی پالیسی پر قائم ہے۔ اسرائیلی اپوزیشن اور قیدیوں کے اہل خانہ بھی نیتن یاھو پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ صرف اپنی سیاسی کرسی بچانے کے لیے اس درندگی کو طول دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ قابض اسرائیل غزہ پر وحشیانہ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں 66 ہزار 5 فلسطینی شہید اور ایک لاکج 68 ہزار 162 زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی قحط نے 442 فلسطینیوں کی زندگیاں نگل لیں جن میں 147 بچے شامل ہیں۔