میڈریڈ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) یورپی یونین کے رکن سپین نے بھی اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے میں جنوبی افریقہ کے ساتھ شریک مقدمہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سپین کی طرف سے اس امر کا باقاعدہ اعلان جمعرات کے روز کیا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں پچھلے سال کے اواخر میں غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی بشمول بچوں اور عورتوں کے ہلاکتوں اور دوسرے غیر قانونی اقدامات کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ 1948 کے نسل کشی کنونشن کے تناظر میں دائر کر رکھا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اس کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسرائیل اس جرم سے انکار کرتا ہے۔
واضح رہے سپین ان تین یورپی ملکوں میں بھی شامل ہے جنہوں نے پچھلے ماہ 28 مئی 2024 کو اسرائیل کو سخت ناراض کر کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ ان تین ملکوں میں آئر لینڈ اور ناروے بھی شامل ہیں۔
سپین کے وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے نسل کشی کے مقدمے میں اسرائیل کے خلاف فریق بننے کے سلسلے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ‘ ہمارا واحد مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہے اور دیرینہ مسئلے کے دو ریاستی حل تک پہنچنا ہے۔’ سپین کی طرف سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے ساتھ ایک فریق کے طور پر سامنے لانے کے لیے پریس کانفرنس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ایک ہفتے بعد کی گئی ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک یورپی ملک کا اسرائیل کے خلاف فریق بننے کا یہ فیصلہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ جبکہ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے یورپی یونین کی سطح پر حالیہ ڈسکشن کے بعد اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز کو دعوت دی ہے کہ یورپی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ غزہ کی تازہ صورتحال کے علاوہ یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان پہلے سے موجود تجارتی معاہدات کا بھی جائزہ لیا جاسکے۔
دوسری جانب بین الاقوامی عدالت انصاف نے اب تک اسرائیل کے حوالے سے جو حکم جاری کیے ہیں ان میں 26 جنوری کا حکم اور 24مئی کو جاری کردہ کے علاوہ جمعہ کے روز کا تازہ ترین حکم بھی ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کی تحقیقات کرنے جانے والی ٹیموں کو غزہ میں بلا رکاوٹ رسائی دے۔