غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز غزہ شہر کے مغرب میں واقع الرمل کے جنوبی علاقے میں مکہ ٹاور کو جارحیت سے نشانہ بنایا اور چند لمحوں کے نوٹس کے بعد میزائلوں کی بارش کر کے اسے زمین بوس کر دیا۔ دھماکوں کے بعد دھوئیں کے بلند بادل آسمان کی طرف اٹھتے دیکھے گئے۔
یہ ٹاور درجنوں منزلوں پر مشتمل ایک رہائشی عمارت تھی جس میں سیکڑوں بے گھر فلسطینی خاندان پناہ لیے ہوئے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق عمارت کے گرد بھی سینکڑوں خیمے لگے ہوئے تھے جن میں ہزاروں مزید بے گھر فلسطینی مقیم تھے۔
قابض فوج نے حملے سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل رہائشیوں کو عمارت خالی کرنے کا حکم دیا اور انہیں جنوبی غزہ کے علاقے المواصی کی طرف جانے کو کہا۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے قابض اسرائیل جھوٹا دعویٰ کر کے “محفوظ” قرار دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جگہ بھی بار بار حملوں کی زد میں رہتی ہے جہاں سینکڑوں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ المواصی میں زندگی کی بنیادی ضروریات تک موجود نہیں اور لوگ بھوک، پیاس اور بیماریوں سے دوچار ہیں۔
گذشتہ روز غزہ کی سرکاری میڈیا آفس نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ صرف مرکزی اور جنوبی صوبوں میں قابض اسرائیل کے حملوں میں 1903 معصوم فلسطینی شہری شہید کیے گئے جن میں عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ یہ تعداد 11 اگست سے اب تک شہید ہونے والوں کا 46 فیصد ہے۔ ان حملوں میں 133 بار مختلف اقسام کے بم، میزائل اور توپ خانے استعمال کیے گئے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ جنوبی علاقے اور المواصی “محفوظ” ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران قابض فوج نے اہلِ غزہ کو بار بار خبردار کیا کہ وہ شہر چھوڑ کر جنوب کی طرف نکل جائیں، بالخصوص المواصی کی طرف جہاں پہلے ہی ایک ملین کے قریب فلسطینی پناہ گزین بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ علاقہ خان یونس کے مغرب سے رفح کے مغرب تک پھیلا ہوا ہے اور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے۔
قابض اسرائیل کی درندگی یہیں نہیں رکی بلکہ حالیہ ہفتوں میں اس نے غزہ شہر میں درجنوں رہائشی ٹاورز اور سیکڑوں گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ حکومتی اور انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق اس وحشیانہ پالیسی کا مقصد فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کر کے شہر کو خالی کرانا اور اس پر مکمل قبضے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
21 ستمبر کو قابض اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ شہر میں اپنی زمینی کارروائیوں کو مزید وسیع کر رہی ہے۔ یہ کارروائی بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کا آغاز 11 اگست سے ہوا، جس میں غزہ پر مرحلہ وار قبضے کے لیے وسیع حملے کیے جا رہے ہیں۔
امریکہ کی کھلی پشت پناہی سے قابض اسرائیل سات اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں بدترین نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اب تک 66 ہزار پانچ فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 68 ہزار 162 زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی محاصرے کے باعث مسلط کی گئی قحط نے 442 فلسطینیوں کی جان لے لی جن میں 147 معصوم بچے شامل ہیں۔