Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’غزہ کی قتل گاہ میں قبرستان بھی تنگ پڑ گئے،انسانوں کے قتل عام کے ساتھ انسانیت بھی مرچکی ‘

غزہ  (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی زخمی زمین ایک بار پھر چیخ اٹھی ہے۔ جنوبی شہر خان یونس کے ناصر ہسپتال سے آنے والی دل دہلا دینے والی خبر نے ہر زندہ ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ اب شہر میں دفنانے کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ قابض اسرائیل کی درندگی، بمباری اور نسل کشی نے وہ دن دکھا دیے ہیں کہ مرنے والوں کو دفن کرنے کے لیے بھی زمین دستیاب نہیں۔

ہسپتال کی دیوار پر ٹنگا سیاہ بینر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اس پر لکھا ہے کہ”ہمارے پاس قبریں نہیں بچیں۔ تمام گنجائش ختم ہو چکی ہے”۔

چند الفاظ لیکن ایسے جو پوری امت مسلمہ کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ موت مسلسل آ رہی ہے اور اب موت کے بعد عزت سے دفن ہونا بھی خواب بن چکا ہے۔

لاشیں زمین پر، سائے سے بھی محروم

فلسطینی صحافی سراج طبش نے لرزتے دل کے ساتھ لکھاکہ”دھوپ شہداء کے جسموں کو جلا رہی ہے۔ وہ قبروں کے کنارے پڑے ہیں۔ دفنانے کے لیے جگہ نہیں بچی۔ ہم کہاں آ پہنچے ہیں؟”۔

ایک قیامت خیز منظر جہاں انسانیت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ خان یونس کے قبرستان کے باہر کم از کم سات شہداء کی لاشیں پڑی ہیں۔ ان کے لواحقین بے بسی، کرب اور اذیت کے عالم میں ہاتھ اٹھائے کھڑے ہیں مگر اس بے رحم زمین پر اپنے پیاروں کے لیے دفن کی ایک بالشت جگہ بھی نہیں ملتی۔

ایک شخص زاروقطار روتے ہوئے بول رہا تھاکہ”لوگ اپنے شہداء کو لے آتے ہیں، پھر ایک کونے میں بیٹھ کر روتے رہتے ہیں۔ قبریں ختم ہو گئیں۔ نہ مٹی ہے، نہ کتبے۔ ہم کہاں دفن کریں انہیں؟”۔

قابض اسرائیل کی درندگی، لاشوں کی بے حرمتی کا جرم

خان یونس کے محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر محمد الغلبان نے اس ظلم کو ’’دوہری آفت‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف زندہ فلسطینی ہی اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ نہیں بنے، بلکہ شہداء کی حرمت بھی روند دی گئی۔

قابض اسرائیلی بلڈوزر قبرستانوں کو روندتے ہیں، قبریں اکھاڑتے ہیں، اور شہداء کے جسم چرا کر لے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا سفاکیت ہو سکتی ہے؟۔

الغلبان نے بتایا کہ غزہ میں 60 قبرستانوں میں سے 40 کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ “خان یونس کا الحاج محمد قبرستان بھی چن چن کر اجاڑا گیا۔ قبریں اکھاڑی گئیں، لاشیں نکال لی گئیں اور دنیا خاموش ہے، بے حس، بے ضمیر!”

انہوں نے مزید کہا کہ”اب ہمارے پاس قبرستان بچے ہیں، نہ ہسپتالوں کے میدان۔ ہم نے ہسپتالوں کے صحن میں عارضی قبریں بنائیں، مگر وہ بھی بھر چکی ہیں۔ لاشیں ہیں کہ دفن نہیں ہوتیں، انسانیت ہے کہ دم توڑ چکی ہے”۔

عارضی قبریں… دائمی بے توقیری

جنگ کے دوران ایک نیا قبرستان بنایا گیا۔ شاید وہ ان شہداء کو جگہ دے سکے جو آزادی کے لیے جان دے چکے تھے۔ مگر چند مہینوں میں وہ قبرستان بھی بھر گیا۔ اب دروازہ بند ہے۔
یہ بند دروازہ صرف ایک قبرستان کا نہیں۔ یہ انسانیت کے ضمیر کا بند دروازہ ہے۔

اب شہداء زمین پر پڑے ہیں، سورج ان کے چہروں کو جھلسا رہا ہے، لواحقین آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائے سوال کر رہے ہیں:
“کیا ہمارے پیارے دفن ہونے کے بھی قابل نہیں؟ کیا ہماری سرزمین میں ان کے لیے ایک گز زمین بھی نہیں بچی؟”

قبریں کھودی گئیں، لاشیں چرا لی گئیں… درندگی کی انتہا

غزہ کے سرکاری دفتر نے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کیے ہیں۔ قابض اسرائیل کی افواج نے 13 قبرستانوں میں 2000 سے زائد قبریں کھودی ہیں، 300 سے زائد شہداء کے جسم چرا لیے گئے ہیں۔ یہ وہ جرم ہے جو نہ صرف انسانی قانون بلکہ ہر الہامی مذہب کے خلاف ہے۔

چوری شدہ لاشیں کہاں گئیں؟ کسی کو نہیں معلوم۔ ان شہداء کو پہلے جان سے مارا گیا، پھر زمین میں دفن ہونے سے روکا گیا اور اب ان کی یادیں بھی چھین لی گئیں۔

چٹانوں سے ٹکرا کر لوٹنے والی فریاد

غزہ اب صرف شہر نہیں، ایک زندہ قبرستان بن چکا ہے۔ پانی، نہ دوا، بجلی اور نہ قبر۔

شہداء کو کہاں دفن کیا جائے؟

جب جسم چوری ہو جائیں تو نمازِ جنازہ کہاں پڑھی جائے؟

جب مردے بھی بے حرمت ہوں، تو دنیا کے ضمیر کو کیا کہیں؟

یہ صرف موت نہیں، یہ انسانیت کی موت ہے

غزہ میں یہ صرف تدفین کا بحران نہیں، یہ انسانیت کے جنازے کا المیہ ہے۔ شہداء، جنہوں نے آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، وہ آج زمین کی ایک مٹھی مٹی کو ترس رہے ہیں۔

اب وہ زمین پر پڑے ہیں، دھوپ میں، خاموشی میں، اور ان کے پیارے دل تھامے بیٹھے ہیں۔دل جو جلتے انگارے بن چکے ہیں،
آنکھیں جو آنسوؤں سے خشک ہو چکی ہیں، قبریں جو اب فقط ایک خواب بن چکی ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan