مقبوضہ بیت المقدس –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اسرائیل بھر میں جاری احتجاجی تحریک کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ حماس کو جھکائے بغیر جنگ بندی کا مطالبہ ’’سات اکتوبر جیسے واقعات‘‘ کو دہرانے کے مترادف ہے۔
کابینہ اجلاس کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے نیتن یاھو نے دعویٰ کیا:
“جو لوگ آج جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ نہ صرف حماس کے موقف کو تقویت دیتے ہیں بلکہ قیدیوں کی رہائی کو بھی مشکل بنا دیتے ہیں اور یہ یقینی بناتے ہیں کہ سات اکتوبر (طوفان الاقصیٰ) جیسے مناظر دوبارہ دہرائے جائیں، جس کے نتیجے میں ہمیں نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنی پڑے گی۔”
نیتن یاھو نے فخر کے ساتھ بتایا کہ گذشتہ روز اسرائیلی فوج اور سکیورٹی ادارے کئی محاذوں پر سرگرم رہے۔ ان کے مطابق اسرائیلی بحریہ نے یمن میں بجلی گھروں پر حملے کیے، فوج نے غزہ شہر کے علاقے الزیتون میں کارروائی کرتے ہوئے القسام بریگیڈز کے متعدد مجاہدین کو شہید کیا جبکہ فضائیہ نے لبنان میں حزب اللہ کے رہنماؤں اور میزائل داغنے کے مراکز کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ کی پٹی پر مکمل اسرائیلی سکیورٹی کنٹرول جنگ کے خاتمے کی بنیادی شرط ہے۔ ان کے بقول “ہم صرف حماس کے ہتھیاروں کی ضبطی پر نہیں بلکہ غزہ کی مکمل غیر مسلح حیثیت پر اصرار کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل وقفے وقفے سے جارحانہ کارروائیاں جاری رکھے گا تاکہ کوئی فریق دوبارہ منظم ہو کر اسلحہ جمع نہ کر سکے۔”
نیتن یاھو نے یہ بھی کہا کہ “حماس چاہتی ہے کہ ہم غزہ کے ہر حصے سے نکل جائیں، چاہے وہ شمال ہو یا جنوب، رفح کا فلاڈیلفی کوریڈور ہو یا نام نہاد سکیورٹی زون، تاکہ وہ اپنی صفوں کو دوبارہ منظم کر کے ہم پر حملے کر سکیں۔”
انہوں نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے مطالبات کرنے والے دراصل “حماس کو مضبوط کرتے ہیں، قیدیوں کی رہائی کو مشکل بناتے ہیں اور سات اکتوبر جیسے حملوں کے دہرانے کی ضمانت دیتے ہیں، جس سے ہمارے بیٹے بیٹیاں نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیے جائیں گے۔”
اسرائیلی معاشرے میں شدید ردعمل
نیتن یاھو کے ان بیانات پر اسرائیلی عوام اور قیدیوں کے اہل خانہ نے سخت ردعمل دیا۔ حماس کے ہاتھوں گرفتار فوجی متان تسنغاؤوکر کی والدہ، عیناف تسنغاؤوکر نے کہا:
“میں کسی بھی دوسرے حل کے لیے بات کرنے کو تیار ہوں، مگر ہمارے وزیراعظم بھول گئے ہیں کہ وہ ہمارے حاکم نہیں، ایک عام شہری ہیں جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ انہوں نے قیدیوں کے مسئلے پر سنگین غفلت برتی ہے اور یہ سب انہی کی حکومت کے دوران ہوا۔”
اتوار کی صبح سے اسرائیل میں بڑے پیمانے پر ہڑتال اور احتجاجی تحریک جاری ہے جس کی قیادت اُن فوجیوں کے اہل خانہ کر رہے ہیں جو غزہ میں ہلاک یا قید ہوئے۔ ان کا بنیادی مطالبہ ہے کہ جنگ فوری ختم کی جائے اور قیدیوں کو واپس لایا جائے۔
مظاہرین نے بیت المقدس کے داخلی راستے پر ہائی وے نمبر ایک بند کر دیا، رعننا میں ٹریفک روک دی اور کئی شہروں میں دھرنے دیے۔ تل ابیب میں وزیر یتسحاق فاسرلوف، وزیر جنگ یسرائیل کاتس اور وزیر اسٹریٹیجک امور رون ديرم کے گھروں کے باہر بھی شدید احتجاج کیا گیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق “اسیران کے اہل خانہ کا فورم” نامی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا:
“ہمارا مطالبہ واضح ہے: قیدیوں کو فوراً واپس لاؤ، ہمارے فوجیوں کو واپس لاؤ، اور غلافِ غزہ کے مکینوں کو سکون کی زندگی واپس دو۔”
قیدیوں کا مسئلہ
اہل خانہ کے نمائندوں نے کہا کہ ان کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈال کر حماس کے ساتھ تبادلے کا معاہدہ کرانا ہے۔ انہوں نے اپنے قیدیوں کو پیغام دیا کہ “سارا اسرائیلی معاشرہ تمہارے پیچھے کھڑا ہے اور ہم تمہاری آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔”
اسرائیلی اندازوں کے مطابق اس وقت غزہ میں تقریباً 50 اسرائیلی قیدی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 زندہ ہیں۔ دوسری جانب قابض اسرائیل کی جیلوں میں 10 ہزار 800 سے زیادہ فلسطینی مرد و خواتین قید ہیں۔ انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق ان قیدیوں پر وحشیانہ تشدد، بھوک اور طبی غفلت مسلط ہے جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔