Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

صہیونی نسل کشی کا بیانیہ منظم منصوبہ جو انسانیت کے لیے خطرہ ہے: الرشق

دوحہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے سیاسی شعبے کے سینئر رہنما عزت الرشق نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ قابض صہیونی ریاست کی نسل کشی پر مبنی سوچ، بیانات اور اقدامات ایک منصوبہ بند، درندہ صفت اور غیر انسانی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو پوری انسانیت کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔

الجزیرہ ڈاٹ نیٹ پر شائع ہونے والے اپنے تفصیلی مضمون میں عزت الرشق نے کہا کہ “کیا ہم واقعی غزہ میں ایک فوجی حملہ دیکھ رہے ہیں؟ یا یہ ایک منظم اور نسل پرستانہ بنیادوں پر قائم مکمل منصوبہ ہے جو نسلی تطہیر اور نسل کشی کی واضح شکل رکھتا ہے؟”

انہوں نے لکھاکہ “امریکی اسلحہ، چاہے جس بھی نام سے ہو جس نے ہیر وشیما اور ناگاساکی میں انسانیت کے خلاف ناقابلِ تصور جرم کیا، وہی ہتھیار آج فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی ہاتھوں میں ہے جو انسانی ضمیر اور انسانیت سے عاری ہیں”۔

عزت الرشق نے جاپانی عوام پر ایٹمی بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے وہاں جاپان کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے دو لاکھ سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور نسل در نسل تابکاری سے معذوری کا سامنا کروایا۔ آج وہی سوچ، وہی استعماری ذہنیت فلسطینی عوام کے خلاف جاری ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم دو مظلوم اقوام کا موازنہ نہیں کر رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ استعماری نظام کے عزائم ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں، بس ہاتھ بدلتے ہیں۔

عزت الرشق نے کہا کہ “قابض صہیونی ریاست نے اپنے بیانیے کی بنیاد ہی فلسطینیوں کو غیر انسانی قرار دے کر رکھی ہے تاکہ قتل عام کے لیے نفسیاتی زمین ہموار کی جا سکے۔ ان کے فوجی، جو دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے ہیں قتل کو نہ صرف فریضہ سمجھتے ہیں بلکہ اس سے لذت بھی لیتے ہیں۔ ان کا سہارا امریکی مہلک اسلحہ اور وہ نظریاتی زہر ہے جسے صہیونی سیاستدان مختلف سیاسی مہمات اور پروپیگنڈے کی شکل میں دہراتے رہتے ہیں”۔

انہوں نے سنہ2023ء میں قابض ریاست کے سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے الفاظ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ “ہم حیوانوں سے لڑ رہے ہیں اور ویسا ہی سلوک کر رہے ہیں”۔ عزت الرشق نے کہا کہ ایسے بیانات ہی کافی تھے کہ اگر انصاف ہوتا تو یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے، لیکن ان بیانات کے بعد ان کے طیاروں سے موت برستی رہی، معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا، پورے خاندان مٹا دیے گئے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ موجودہ وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے کھلے عام کہا کہ “فلسطینی قوم وجود ہی نہیں رکھتی۔غزہ کے شہریوں کو بھوکا مارنا اخلاقی اور قابل قبول ہے۔ ہم غزہ کو مکمل طور پر مٹا رہے ہیں،ہم وہاں ایک اینٹ بھی نہ چھوڑیں گے”۔

نسیم فتوری نائب صدر اسرائیلی پارلیمان نے کہاکہ “غزہ کو اس کے باشندوں سمیت ایک ہی بار جلا دو، ہمارا مقصد یہی ہے کہ غزہ نقشہء زمین سے مٹ جائے”۔

وزیر نام نہاد صہیونی ورثہ عمیحای الیہو، نے ترکیہ اور شام کے زلزلے پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے “الٰہی انصاف” قرار دیا۔ اس نے کہا تھا “غزہ کے شہریوں کو موت سے زیادہ تکلیف دہ طریقوں سے اذیت دینا چاہیے۔محض مار دینا کافی نہیں”۔

ایتمار بن گویر نے کہاکہ “غزہ کو مکمل تباہ کر دینا چاہیے، کوئی بے گناہ نہیں، جبکہ موشے فیگلن نے کہا کہ “غزہ کے ہر بچے کو دشمن سمجھنا چاہیے، ہمیں ایسا قبضہ کرنا ہے کہ وہاں ایک بھی بچہ نہ بچے”۔

عزت الرشق نے سوال کیا کہ “کیا یہ بیانات صرف غصے کے لمحات تھے؟ یا یہ انسانیت کی تاریخ کی بدترین، منظم نسل کشی کے پیش خیمے تھے”۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ انفرادی خیالات نہیں بلکہ صہیونی ریاست کی منظم سیاسی سوچ ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر نسل کشی کی شکل میں عملی جامہ پہنتی ہے، اور عالمی برادری کی شرمناک خاموشی اس جرم کو تقویت دیتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک غزہ کا 90 فیصد علاقہ مکمل طور پر تباہ کیا جا چکا ہے، حتیٰ کہ وہ علاقے بھی جو قابض صہیونی ریاست نے خود “محفوظ” قرار دیے تھے، 46 بار نشانہ بنائے گئے۔

انہوں نے کہا: “63 ہزار سے زائد شہید اور لاپتہ افراد، جن میں 18 ہزار سے زائد بچے، 12 ہزار سے زیادہ خواتین، جن میں 7950 مائیں بھی شامل ہیں، قربانی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ 2483 خاندان مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں، جن کا ریکارڈ اب فلسطینی شہری رجسٹر میں موجود ہی نہیں۔”

عزت الرشق کے مطابق، شہداء میں 60 فیصد سے زائد تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی ہے۔ 42 ہزار سے زائد یتیم بچے اس نسل کشی کے نتیجے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا: “غزہ کی نصف آبادی بچے ہیں، یعنی 10 لاکھ سے زائد معصوم زندگیاں، جنہیں قابض صہیونی فوج نے قتل، معذوری، اغوا، جبری نقل مکانی اور طبی سہولیات سے محروم کر کے موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اس درندگی کی انتہا اس وقت ہوئی جب غزہ کو مکمل طور پر محاصرے میں لے لیا گیا۔ یہ محاصرہ جنگجوؤں کے خلاف نہیں بلکہ نومولود بچوں، بوڑھوں اور مریضوں کے خلاف ہے، جن کی زندگیاں ہسپتالوں اور طبی مراکز سے وابستہ تھیں، جو اب ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔

انہوں نے میڈیا کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: “اس نسل کشی کی سچائی دنیا تک پہنچانے والے صحافیوں میں سے 226 شہید ہو چکے ہیں۔”

انہوں نے واضح کیا کہ قابض ریاست کے اقدامات اقوام متحدہ کی نسل کشی کی روک تھام کے کنونشن، سنہ1948ء کے آرٹیکل 2 کے تحت مکمل طور پر “نسل کشی” کے زمرے میں آتے ہیں۔

انہوں نے کہا: “امریکی ایٹمی ہتھیار جس نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا، آج فلسطینی عوام کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، مگر یاد رکھیں، فلسطینی عوام کے لغت میں ہتھیار ڈالنا ناممکن ہے۔”

عزت الرشق نے جذباتی انداز میں کہا: “غزہ کا درد لینن گراڈ سے بڑھ چکا ہے، اس کی مزاحمت سٹالن گراڈ سے طویل ہو چکی ہے، اور اس کی فتح ان شاء اللہ قریب ہے جو اہل ایمان کے دلوں کو ٹھنڈک عطا کرے گی۔ غزہ وہ قوم ہے جو آزادی کے بیج بوئے گی اور صہیونی منصوبے کا خاتمہ کرے گی۔”

انہوں نے اختتام پر کہا: “دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا، یا تو وہ انسانیت اور عدل کے ساتھ کھڑی ہو یا پھر اکیسویں صدی کی سب سے بڑی نسل کشی میں شریک جرم بن جائے”۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan