Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

صہیونی زندانوں میں قید فلسطینیوں پر کیا گذری، ہولناک تشدد کے لرزہ خیز انکشافات

رام اللہ   (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطین کے اسیران کی نمائندہ تنظیم “محکمہ امور اسیران” اور ” کلب برائے اسیران” نے ایک مشترکہ بیان میں قابض اسرائیل کی جیلوں میں پابند سلاسل غزہ کے فلسطینی اسیران کی نئی اور دل دہلا دینے والی گواہیوں کو منظر عام پر لایا ہے، جنہوں نے صہیونی ظلم و ستم کی اندوہناک تفصیلات کا انکشاف کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اجتماعی نسل کشی پر مبنی صہیونی جنگی جنون کو لگ بھگ 600 دن گزر چکے ہیں مگر غزہ کے اسیران اب بھی جسمانی اور ذہنی اذیتوں، تذلیل آمیز سلوک اور صہیونی درندگی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کی تازہ گواہیاں نہ صرف اس ظلم کی شدت کو بے نقاب کرتی ہیں بلکہ اس جبر کی سنگینی وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں ماہ کے دوران قانونی ٹیموں نے غزہ کے کئی اسیران سے ملاقات کی، جنہیں صہیونی قابض افواج نے “سدے تیمان” اور “عوفر” جیسے اذیت گاہوں میں قید رکھا ہوا ہے۔ ان ملاقاتوں میں سامنے آنے والی رودادوں نے ظلم و ستم کی شدت، انسانیت سوز سلوک اور مسلسل تذلیل کی داستانوں کو ایک بار پھر عیاں کر دیا۔

بیان میں واضح کیا گیا کہ ان اسیران کو خاص طور پر “سدے تیمان” نامی عقوبت خانے میں قید رکھا گیا ہے، جو صہیونی تشدد، تفتیش کے غیر انسانی طریقوں اور قیدیوں کی تذلیل کا مرکزی استعارہ بن چکا ہے۔

ایک فلسطینی اسیر نے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ “مجھے 27 دسمبر 2024ء کو شمالی غزہ کے ہسپتال ‘کمال عدوان’ سے گرفتار کیا گیا۔ مجھے بیت المقدس کے ایک قید خانے میں 24 دن تک رکھا گیا۔ ان دنوں میں ہم مسلسل زنجیروں میں جکڑے رہے۔ بیس دن تک تفتیش ہوئی، پھر مزید تین بار ہر بار چار گھنٹے کے لیے تفتیش کی گئی۔ تفتیش کے دوران مجھے ’ڈسکو‘ طریقے سے اذیت دینے کی دھمکی دی گئی”۔

انہوں نے کہا کہ دو ماہ بعد ایک مختصر سی ٹیلیفونک عدالت میں پیشی ہوئی، جہاں تین منٹ میں اس کی حراست کو غیر معینہ مدت تک بڑھا دیا گیا۔ تفتیش سے قبل مجھے مکمل طور پر برہنہ کر کے موبائل سے تصاویر لی گئیں۔

اس نے مزید بتایا کہ ان کی رہائش انتہائی ناگفتہ بہ ہے، کھانے کے برتن تک موجود نہیں اور “سدے تیمان” میں آنے کے بعد صرف ایک بار کپڑے بدلنے کا موقع ملا۔

ایک اور اسیر نے بتایا کہ اسے نومبر 2024ء میں اس کے اہل خانہ سمیت 180 افراد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ انہیں ’سول ایڈمنسٹریشن‘ کے قریب ایک عمارت میں محصور رکھا گیا، پھر “سدے تیمان” منتقل کیا گیا، جہاں مسلسل 18 گھنٹے تک تفتیش کے دوران اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر “ڈسکو” طریقے سے 24 گھنٹے اذیت دی گئی۔ 35 دن بعد ٹیلیفون کے ذریعے ایک مختصر عدالت میں پیشی ہوئی اور اس کی قید کو جنگ کے اختتام تک بڑھا دیا گیا۔

قیدی نے کہا کہ ہر 25 قیدیوں کو ایک خیمے نما جگہ میں بند رکھا گیا ہے، انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں، سارا دن بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور فوجیوں کی مرضی پر ہی تھوڑی سی چہل قدمی کی اجازت ملتی ہے، بصورت دیگر ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

اس نے کہا کہ اسے گذشتہ 90 دنوں سے کپڑے بدلنے نہیں دیے گئے اور گزشتہ 30 دنوں سے وہ صرف اندرونی لباس میں ہے۔ نہانے کا وقت صرف دو منٹ ہوتا ہے اور پانچ سے چھ قیدی ایک ہی تولیہ استعمال کرتے ہیں۔

ایک اور اسیرنے بتایا کہ “مجھے 27 دسمبر 2024ء کو ’محفوظ گزرگاہ‘ سے گرفتار کیا گیا۔ ہمیں رات بھر شدید سردی میں کھلے آسمان تلے کھڑا رکھا گیا، پھر جبری طور پر ’کورونا گاؤن‘ پہنایا گیا۔ راستے بھر ہمیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔”

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس کے کندھے اور ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد ہے، لیکن درد کش دوا کی درخواست کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا۔ اسے بھی ایک مختصر فون کال کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا اور اس کی حراست غیر معینہ مدت تک بڑھا دی گئی۔

ایک اور قیدی نے بتایا کہ اسے 29 دسمبر 2024ء کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے باوجود شدید تشدد کیا گیا، اور آج بھی اسے مسلسل پیٹ درد کی شکایت ہے۔

اسیر نے بتایا: “مجھے تین دن تک مکمل برہنہ رکھا گیا، پھر سفید گاؤن پہنایا گیا، بیت المقدس منتقل کیا گیا، وہاں 41 دن آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھ کر رکھا گیا۔ دوران قید مسلسل مارا گیا۔”

ایک دوسرے اسیر نے بتایا کہ “مجھے نومبر 2024ء میں گرفتار کیا گیا۔ جب ہمیں باہر لایا جاتا ہے تو سروں کو جھکانے پر مجبور کیا جاتا ہے، قطار بنا کر ’ٹرین‘ کی شکل میں چلایا جاتا ہے۔ پانچ ماہ سے میں نے کپڑے نہیں بدلے، سردیوں میں ہمیں ٹھنڈے پانی سے نہانے پر مجبور کر کے اذیت دی جاتی ہے۔ بعض اوقات ہمارے سامنے دوسرے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ہمیں خوفزدہ کیا جا سکے”۔

اسیران کو بنیادی ضروریات تک فراہم نہیں کی جاتیں۔ دانتوں کا برش اور ٹوتھ پیسٹ تک نہیں، ٹوائلٹ کے لیے صرف ایک رول کاغذ دیا جاتا ہے، برتنوں کی جگہ ہاتھوں میں خوراک دی جاتی ہے۔

اسیران کے حقوق کے نگران اداروں کا کہنا ہے کہ یہ گواہیاں صہیونی عقوبت خانوں میں جاری نسل کشی، اجتماعی سزا اور انسانیت سوز مظالم کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔

واضح رہے کہ 2023ء سے شروع ہونے والی نسل کش جنگ کے دوران غزہ کے 44 اسیران صہیونی عقوبت خانوں میں شہید ہو چکے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر اسرائیلی جیلوں میں 70 فلسطینی شہداء کی تصدیق ہو چکی ہے۔ درجنوں لاشیں اب بھی صہیونی ریاست کی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔

آخری اعلان کے مطابق قابض اسرائیل نے غزہ کے 1846 اسیران کو “غیر قانونی جنگجو” قرار دے کر قید میں رکھا ہوا ہے، یہ اعداد و شمار فوجی کیمپوں میں موجود تمام قیدیوں کو شامل نہیں کرتے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan