غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسرائیلی تاریخ کے سیاہ ترین باب میں ایک اور ہوشربا انکشاف قابض اسرائیلی فوج کے ایک سابق جنرل اور “ڈیموکریٹس” کے سربراہ یائیر گولان نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ اس نے تسلیم کیا کہ صہیونی حکومت نہ صرف فلسطینی بچوں کو قتل کر رہی ہے، بلکہ اسے ایک “مشغلہ” سمجھ کر انجام دے رہی ہے۔یہ اعتراف ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی سفارتی ساکھ زمین بوس ہو چکی ہے اور عالمی برادری کی نگاہوں میں وہ ایک نسل کش، غیر اخلاقی اور خونخوار ریاست کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔
یائیر گولان کا یہ بیان اسرائیل کی معروف اخبار “یدیعوت آحرونوت” میں شائع ہوا،جس میں اس نے کہا کہ اگر اسرائیل نے اپنے طرز عمل پر نظرثانی نہ کی تو وہ جنوبی افریقہ کی طرح دنیا سے کاٹ دیا جائے گا۔ ایک مہذب ریاست شہریوں پر جنگ مسلط کرتی ہے، نہ بچوں کا خون بہاتی ہے اور نہ ہی لوگوں کو جبراً بے گھر کرتی ہے۔
اس سے قبل بھی گولان نے بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کو اخلاق باختہ اور انتقام پرست قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی ہر کوشش کو ٹھکرا کر صرف خونریزی کو ترجیح دے رہی ہے۔
اخلاقی دیوالیہ پن اور اندرونی زوال
گولان کے بہ قول قابض اسرائیل تنہائی، اقتصادی بدحالی اور معاشرتی انحطاط کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عوام کے تحفظ کی ضمانت دینے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کی پالیسیاں جن میں مذہبی شدت پسندوں کو خوش کرنے کے لیے سیاسی عہدے اور بستیوں کی غیرقانونی توسیع شامل ہے اسرائیل کو رہنے کے لائق جگہ بنانے کے بجائے نفرت، ظلم اور جبر کا گڑھ بنا رہی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ بنجمن نیتن یاھو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کو ایک کامیاب حکمت عملی سے ہمکنار کرنے کے بجائے شدت پسند رہنماؤں جیسے بتسلئیل سموٹریچ اور ایتمار بن گویر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل اب اپنے سب سے اہم اتحادی امریکہ کی امداد کھونے کے دہانے پر آ چکا ہے۔
حکومت کے اندر زلزلہ
گولان کے اس جرات مندانہ بیان نے صہیونی حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ بنجمن نیتن یاھو سمیت کئی سرکردہ وزرا نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ نیتن یاھو نے حسب سابق “دفاع” کا پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ اسرائیل صرف مغویوں کو بازیاب اور “حماس کو شکست” دینے کی جنگ لڑ رہا ہے۔
وزیر خارجہ جدعون ساعر نے گولان کے الفاظ کو “ناقابل معافی” قرار دیا۔ وزیر قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے انہیں “خونخوار بہتان” کہا جبکہ وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے گولان کے بیانات کو نازیوں کے پروپیگنڈے سے تشبیہ دی۔ حتیٰ کہ سابق وزیراعظم نفتالی بینٹ نے بھی گولان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “بچوں کو قتل کرنے والی صرف حماس ہے”۔
ایہود باراک کی تائید
تاہم اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود باراک نے گولان کی حمایت کرتے ہوئے انہیں “ایک بہادر شخص” قرار دیا اور کہا کہ وہ سچ بیان کر رہا ہے۔ گولان نے بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے بجائے اور زیادہ شدت سے کہا کہ جب وزرا بچوں کی موت اور فاقہ کشی کا جشن منائیں تو چپ رہنا گناہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ “میں سچ کہنے سے نہیں ڈرتا۔ یہی خاموشی، خوشامد اور انتہاپسندوں کے پیچھے صف بندی نے ہمیں اس بحران میں دھکیلا ہے”۔
عالمی منظرنامے پر اسرائیل کا چہرہ بے نقاب
اسرائیلی ریاست کی خون آشامی کو بے نقاب کرنے والی یہ آواز محض داخلی تنقید نہیں بلکہ ایک ایسا دھماکہ ہے جس نے دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ غزہ میں جاری قتل عام، جبری ہجرت، بھوک اور بیماری نے اسرائیلی جھوٹے بیانیے کو چکناچور کر دیا ہے۔ اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ قابض اسرائیل نہ صرف ظالم ہے، بلکہ جھوٹ اور فریب کا تاج پہنے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے بعد یورپی یونین کے کئی ممالک بھی اب اسرائیل سے اپنے تجارتی معاہدے ختم کرنے یا ان پر نظرثانی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اسرائیلی جارحیت پرشدید تنقید کی ہے، حتیٰ کہ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات معطل کر دیے ہیں۔
بچوں کی لاشیں اور ویران بستیاں
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے اعتراف کیا کہ “دنیا اب صرف فلسطینی بچوں کی لاشیں اور اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ رہی ہے۔ ہم کوئی حل، کوئی امید نہیں دے رہے، صرف موت اور تباہی ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک “خاموش بائیکاٹ” کا سامنا کر رہا ہے جو اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا: “اب دنیا میں کوئی نہیں جو اسرائیل کے ساتھ جڑنا چاہے”۔
نسل کشی اور انسانیت سوز محاصرہ
ستمبر 2023ء سے جاری اس نازی طرز کی جنگ میں قابض اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی سے اب تک 175 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا ہے۔ ہزاروں بچے، خواتین اور بوڑھے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ غزہ کی گلیوں میں بھوک سے بلکتے بچے اور ملبے تلے دبے خاندان، انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ بن چکے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا فیصلہ کرے آیا وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوگی یا مظلوم فلسطینی قوم کے زخموں پر مرہم رکھے گی۔ عالمی برادری، مسلمان ممالک، عرب حکمرانوں ، اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کے لیے ایک کڑا امتحان ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینی آبادی کی ہولناک نسل کشی پر خاموش تماشائی رہتی ہے یا اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے فلسطینی قوم کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوتی ہے۔