Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

روز قیامت جب آیسر اور ایسل پوچھیں گے کہ انہیں جس جرم میں قتل کیا گیا‘

غزہ – فلسطین فائونڈیشن پاکستان فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں گزشتہ دس ماہ کے دوران قابض نازی صہیونی فوج نے بچوں کے قتل عام میں جس بے دردی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ تاریخ کے بڑے بڑے فراعنہ اور بچوں کے قاتلوں کو بھی لرزہ براندام کر دے گا۔ امریکی اور مغربی بارود، بموں، اور تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مدد سے نہتے اور معصوم فلسطینی بچوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ موت کی نیند سلایا جا رہا ہے۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علم بردار غزہ میں بچوں کی شہادتوں کے ہولناک صہیونی جرائم پر خاموش ہیں، اور غزہ میں بچوں کے بہتے خون نے ان عالمی چیمپیئنز کی منافقت اور دوغلی پالیسی کو بے نقاب کر دیا ہے۔

بچوں کے قتل عام کی جاری اسرائیلی وحشیانہ جنگ کے ہولناک نتائج غزہ کے ہر گھر اور خاندان کا مقدر بن چکے ہیں، جہاں روز بروز معصوم بچوں سمیت عام شہریوں کی شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

چھ اگست کو، ایک ہفتہ قبل، غزہ کے محمد ابو القمصان کی اہلیہ نے دو جڑواں بچوں، آسر اور ایسل، کو جنم دیا۔ والدین کے لیے ایک ساتھ دو جڑواں بچوں کی پیدائش ایک عطیہ خداوندی تھا۔ آسر بچہ اور ایسل بچی تھی۔ غزہ میں مسلسل تکالیف سہتے ہوئے ابو القمصان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

وہ خوشی خوشی اپنے دونوں معصوم اور ننھے جگرگوشوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانے مقامی دفتر میں گئے، مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی خوشی ایک اندوہناک صدمے میں بدلنے والی ہے۔

ابو القمصان جب گھر واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ تو تھے، مگر ان کے دونوں بچے، اہلیہ، اور ساس اسرائیلی بمباری میں اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ تباہ شدہ مکان کے ملبے کے نیچے ان کی خون اور مٹی میں لت پت لاشیں دبے پڑے تھے۔

محمد ابو القمصان کے جڑواں بچوں کا نام آسر اور ایسل رکھا گیا تھا۔ وہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی شہادت کے وقت ان کی عمر صرف چار دن تھی، جب انہیں وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح میں ان کے گھر پر بمباری کرکے قتل کیا گیا۔

ابو القمصان کی اہلیہ جومانہ عرفہ، جو خود ایک فارماسسٹ تھیں، نے سیزرین سیکشن کے ذریعے بچوں کو جنم دیا تھا اور فیس بک پر جڑواں بچوں کی آمد کا اعلان کیا تھا۔ مگر بمباری میں جومانہ کی والدہ حماۃ ابو القمصان بھی جاں بحق ہو گئیں۔

منگل کے روز، ابو القمصان مقامی حکومت کے دفتر میں دونوں شیر خوار بچوں کی رجسٹریشن کے لیے گئے۔ جب وہ وہاں تھے، تو پڑوسیوں نے انہیں فون پر بتایا کہ ان کے اہل خانہ جس مکان میں پناہ لے کر تھے، وہ اسرائیلی فوج نے بمباری سے تباہ کر دیا ہے۔ ابو القمصان کا کہنا ہے کہ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک بم گھر پر گرایا گیا۔

ابو القمصان کا دکھ وہی جانتے ہیں۔ وہ ہسپتال میں اپنے شہید بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ لہراتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے کیونکہ انہیں اب ہسپتال سے بچوں کے ‘ڈیتھ سرٹیفکیٹ’ بنوانے پڑ گئے تھے۔ لوگ انہیں اس خوفناک صدمے پر تسلی دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ابو القمصان اور ان کی اہلیہ نے جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں غزہ شہر کو خالی کرنے کے اسرائیلی احکامات پر عمل کرتے ہوئے جنوب کی طرف نقل مکانی کی تھی، جہاں انہوں نے فوج کی ہدایت پر وسطی غزہ کے اسی علاقے میں پناہ لی تھی، جہاں ان کے خاندان کا قتل عام کیا گیا۔

محمد ابو القمصان کے دو شیر خوار بچوں سمیت، غزہ میں مجموعی طور پر اب تک 115 شیرخوار بچوں کی شہادت ہو چکی ہے، جو سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی بمباری میں مارے گئے ہیں۔

حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ نے غزہ میں ہزاروں خاندانوں کو اجاڑ دیا ہے۔ کئی خاندانوں کے بچے مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں بچے والدین کے قتل ہونے کے بعد یتیم ہو چکے ہیں۔

ایسے ہی لاوارث بچوں میں ریم ابو حیا کی عمر صرف تین ماہ ہے۔ وہ اپنے پورے خاندان کی واحد زندہ بچ جانے والی اولاد ہے۔ گذشتہ سوموار کو فلسطینی خاندانوں کے اجتماعی قتل عام کے ایک واقعے میں اس کے والدین اور پانچ بہن بھائی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہوگئے۔ مرنے والوں میں ابو حیا کے والدین اور پانچ بہن بھائی بھی شامل ہیں، جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان تھیں۔

شیرخوار ریم ابو حیا کی خالہ سعد ابو حیا نے کہا کہ “اس بچی کے سوا کوئی زندہ نہیں بچا۔ ہم صبح سے اسے دودھ پلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ نہیں مانتی کیونکہ وہ اپنی ماں کے دودھ کی عادی ہے”۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کی ہلاکتوں کا الزام حماس پر عائد کرتی ہے کیونکہ عسکریت پسند گنجان آباد رہائشی علاقوں میں کام کرتے ہیں، بعض اوقات چھپ کر گھروں، اسکولوں، مساجد، اور دیگر شہری عمارتوں سے حملے کرتے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 40 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan