نیویارک (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں بھوکے، پیاسے اور نڈھال فلسطینیوں کے خلاف جاری قتلِ عام کو ایک ایسا ہولناک قتل عام قرار دیا ہے جو باضابطہ طور پر فلسطینی زندگی کو مٹانے کا منصوبہ معلوم ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور (اوچا) کے سربراہ جوناتھن ویٹل نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا: کہ”ہم ایک قتل عام کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ننگی مثال ہے۔ یہ جبری ہجرت ہے۔ یہ ان لوگوں کے خلاف سزائے موت کا نفاذ ہے جو محض زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ قابض اسرائیل کی کارروائیاں اجتماعی سزا، اجتماعی موت اور ایک پوری قوم کے وجود کو مٹانے کی منظم کوشش ہیں۔ ان کی گفتگو کو اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم “انروا” نے بھی من و عن جاری کیا۔
وزارت صحت فلسطین کے مطابق امدادی مراکز کی طرف جاتے ہوئے قابض اسرائیلی فائرنگ اور بمباری سے اب تک 516 فلسطینی شہید اور 3,799 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ 39 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ ان شہداء میں بڑی تعداد ان بچوں کے والدین کی ہے، جو صرف اپنے معصوموں کے لیے ایک روٹی لانے نکلے تھے۔
قابض اسرائیل نے 27 مئی سنہ2024ء سے اقوام متحدہ کے دائرہ کار سے ہٹ کر “میڈلین” کے نام سے قائم کی گئی ایک نام نہاد تنظیم کے ذریعے امداد کی محدود تقسیم کا سلسلہ شروع کیا ہے جو دراصل امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی سے چلائی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس منصوبے کو غیر شفاف اور مسترد شدہ قرار دیا ہے۔
ادھر شمالی غزہ اور جنوبی شہر خان یونس سمیت مختلف علاقوں میں قابض اسرائیل نے مسلسل انخلاء کے نوٹس جاری کر رکھے ہیں، جنہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور فلسطینی ادارے جبری ہجرت کی منظم مہم قرار دے رہے ہیں۔ یہ تمام اقدامات ایک ایسے منصوبے کی کڑی ہیں، جس کا ہدف فلسطینیوں کو ان کے گھروں، زمینوں اور تاریخ سے کاٹ کر نکال دینا ہے۔
قابض اسرائیلی حکومت کے وزیر مواصلات شلومو کراعی نے منگل کے روز باقاعدہ طور پر فلسطینیوں کے مکمل انخلا کی حمایت کی جب کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو خود اس پالیسی کو اپنی جنگی حکمتِ عملی کا اہم ہدف قرار دے چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی نسل کشی کے نتیجے میں اب تک 1 لاکھ 87 ہزار سے زائد فلسطینی یا تو شہید ہو چکے ہیں یا شدید زخمی، 11 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں، لاکھوں افراد جبری طور پر بے گھر کیے جا چکے ہیں، اور فاقہ کشی و قحط نے بچوں سمیت ہزاروں جانیں نگل لی ہیں۔ غزہ مکمل طور پر انسانی زندگی سے خالی ایک ملبے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔