Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہو گا:شہباز شریف

دوحہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے دوحہ میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں تجویز دی ہے کہ انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہو گا۔

دوحہ میں اسرائیل کی جانب سے گذشتہ ہفتے حماس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش کے بعد قطر نے پیر کو عرب اور اسلامی ممالک کا اجلاس بلایا ہے تاکہ اسرائیل کے اس ے پر مشترکہ ردعمل پیش کیا جا سکے۔

اجلاس کے لیے آج وفد کے ہمراہ دوحہ پہنچنے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا اسرائیل نے ہمارے برادر ملک قطر کی خود مختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی جس پر پاکستان قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔

انہوں نے حملے کو ’جارحانہ اقدامات کا تسلسل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے جارحیت کے ذریعے امن کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔

’اس جارحیت کے بعد سوال ہے کہ اسرائیل نے مذاکرات کا ڈھونگ کیوں رچایا؟ اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانا قابل مذمت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہو گا۔‘

انہوں نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے غزہ میں شہری آبادی کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔

’ہم 1967ء کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ ہم نے اجتماعی دانش سے اقدامات نہیں کیے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ’اسرائیلی توسیع کے منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے۔‘

’اسرائیل غزہ کو ناقابل رہائش بنانے پر تلا ہوا ہے‘

قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے حماس کے مذاکرات کاروں پر حملہ کر کے غزہ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔

’جو فریق، اس پارٹی کو جس کے ساتھ وہ مذاکرات کر رہا ہے، منظم طریقے سے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا مقصد مذاکرات کو ناکام بنانا ہوتا ہے… ان کے لیے مذاکرات محض جنگ کا حصہ ہیں۔‘

شیخ تمیم کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو ’عرب خطے کو اسرائیلی اثر و رسوخ کے دائرے میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں اور یہ ایک خطرناک فریب ہے۔‘

اسرائیل غزہ پر مسلسل جارحیت کے ساتھ ساتھ ایران، لبنان، شام، یمن اور اب قطر پر بھی حملے کر چکا ہے۔

اس صورتِ حال نے خطے کے ممالک میں شدید غم و غصہ پیدا کیا ہے، خصوصاً جب کہ غزہ میں اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ اجلاس کس حد تک کامیاب ہو سکے گا کیونکہ شریک ممالک کے مابین موجود تناؤ عملی اقدامات کو متاثر کر سکتا ہے۔

نیویارک کے سُوفان سینٹر کے مطابق ’گہرے اختلافات کے باوجود محض ایک ہفتے میں اتنے بڑے اجلاس کا انعقاد ہی خطے میں موجود مشترکہ ہنگامی احساس کو ظاہر کرتا ہے۔

’اصل سوال یہ ہے کہ آیا اجلاس اسرائیل کے خلاف زیادہ مؤثر اقدامات کی طرف اشارہ کرے گا، جن میں سفارتی تعلقات کم کرنا، اقتصادی پابندیاں اور فضائی حدود یا رسائی پر پابندیاں شامل ہیں۔‘

آج اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں قیدیوں کی رہائی کی بجائے صرف اس علاقے کو ’ناقابلِ رہائش بنانے‘ پر تُلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا ’اگر اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر مذاکرات کیوں کرتا ہے؟ اگر وہ قیدیوں کی رہائی پر اصرار کرتا ہے تو پھر تمام مذاکرات کاروں کو کیوں قتل کرتا ہے؟‘

انہوں نے مزید کہا ’ایسے بزدل اور غدار فریق کے ساتھ کوئی معاملہ ممکن نہیں، جو مسلسل مذاکرات کاروں کو ختم کرنے پر تُلے ہیں، وہ یقینی طور پر مذاکرات کی ناکامی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ قیدیوں کی آزادی کے دعوے محض جھوٹ ہیں۔‘

قطر کے 45 سالہ حکمران کی یہ تقریر غیر معمولی طور پر سخت تھی، حالانکہ قطر اب تک جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

اجلاس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ترک صدر رجب طیب اردوان، مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور شام کے عبوری صدر احمد الشرعاء سمیت کئی رہنما شریک ہوئے۔

امریکہ کی جانب سے جون میں ایران کے جوہری ٹھکانوں پر حملے کے بعد ایران نے قطر میں قائم العدید ایئربیس (جہاں امریکی فوج تعینات ہے) پر حملہ کیا تھا، جس پر قطر ناراض ہوا تھا۔

اس کے باوجود ایران کے صدر مسعود پزشکیان اجلاس میں شریک ہوئے۔

رواں اجلاس سے قبل تہران میں انہوں نے کہا ’اسرائیل نے متعدد اسلامی ممالک پر حملے کیے ہیں۔ یہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور بدقسمتی سے امریکا اور یورپی ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں۔‘

’اسرائیل پر لگام‘

ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اتوار کو الجزیرہ کو بتایا کہ اسرائیل کے رویے کا سوال ’اب صرف فلسطین اسرائیل کا مسئلہ نہیں رہا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خطے میں اسرائیل کی توسیع پسندی ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک کو مل کر اس نئے متعین مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

ہارورڈ کے مڈل ایسٹ انیشی ایٹو کی فیلو الہام فخرو نے کہا کہ وہ توقع کرتی ہیں کہ خلیجی ریاستیں ’اسرائیل پر لگام لگانے کے لیے واشنگٹن پر زور دینے کے لیے سربراہی اجلاس کا استعمال کریں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ امریکی سکیورٹی کی مضبوط ضمانتیں بھی حاصل کریں گے، اس بنیاد پر کہ اسرائیل کے اقدامات نے موجودہ یقین دہانیوں کی ناکافی کو بے نقاب کیا ہے اور سکیورٹی پارٹنر کے طور پر امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔‘

پیرس کی سائنسز پو یونیورسٹی کے مشرق وسطیٰ کے لیکچرار کریم بطار نے اس اجتماع کو عرب اور مسلم رہنماؤں کے لیے ایک ’لٹمس ٹیسٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بہت سے حلقے ’بیمار اور پرانے طرز کی باتوں سے تھک چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ آج وہ جس چیز کی توقع کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ ممالک نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کو بھی ایک انتہائی اہم سگنل بھیجیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو یہ بلینک چیک دینا بند کر دے۔

قطر میں خطے میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈہ موجود ہے اور امریکہ اور مصر کے ساتھ اسرائیل-حماس جنگ میں ثالثی کا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan