برسلز(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اس کا سرحدی آبزرور مشن بدھ سے غزہ اور مصر کے درمیان واقع رفح سرحدی گذرگاہ پر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گا۔
یورپی یونین کی خارجہ امور اور سکیورٹی پالیسی کی اعلیٰ نمائندہ کایا کالاس نے سوشل پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک بیان میں کہا کہ یورپی یونین کی بارڈر اسسٹنس مشن (EUBAM) بدھ 15 اکتوبر سے اپنا کام بحال کرے گی۔
کالاس نے بتایا کہ یہ مشن 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے استحکام کے لیے عالمی حمایت انتہائی ضروری ہے اور یورپی یونین اس مقصد کے حصول میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ “آج مشرقِ وسطیٰ ایک نایاب امید کی گھڑی سے گزر رہا ہے”۔ ان کا اشارہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری امن کانفرنس کی جانب تھا۔
پیر کی صبح مختلف ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ حکام شرم الشیخ پہنچے تاکہ اس امن کانفرنس میں شرکت کر سکیں جس کا مقصد قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے خاتمے کو مستقل شکل دینا ہے۔
کالاس نے مزید کہا کہ صہیونی قیدیوں کی رہائی ایک بڑی سفارتی کامیابی اور “امن کی راہ میں فیصلہ کن موڑ” ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ غزہ میں پائیدار امن قائم کرنا “انتہائی پیچیدہ اور مشکل عمل” ہوگا۔
گزشتہ جمعرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ قابض اسرائیل اور “حماس” کے درمیان شرم الشیخ میں ہونے والی بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے پر اتفاق طے پا گیا ہے۔ ان مذاکرات میں ترکیہ، مصر اور قطر نے شرکت کی جبکہ امریکہ نے براہِ راست نگرانی کی۔
ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے مطابق جنگ مکمل طور پر روکی جائے گی، قابض اسرائیلی فوج بتدریج غزہ سے نکلے گی، قیدیوں کا تبادلہ ہوگا، انسانی امداد فوری طور پر داخل ہونے دی جائے گی اور “حماس” کو غیر مسلح کیا جائے گا۔
منصوبے کے تحت غزہ کی حکمرانی ایک غیر سیاسی فلسطینی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کی جائے گی جو عوامی خدمات اور بلدیاتی امور کی دیکھ بھال کرے گی۔
امریکی حمایت یافتہ اس منصوبے کے پس منظر میں یاد رہے کہ قابض اسرائیل نے 8 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں وحشیانہ نسل کشی کی مہم شروع کی تھی جس میں اب تک 67 ہزار 806 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 70 ہزار 66 زخمی ہوئے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ غزہ میں جاری قحط کے باعث مزید 463 فلسطینیوں کی زندگیاں ختم ہوچکی ہیں جن میں 157 معصوم بچے شامل ہیں۔