غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی پٹی کے طبی عملے اور ڈاکٹروں کو دیگر شہریوں کی طرح اپنے اہل خانہ، بچوں اور والدین کے جنازے اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری فلسطینی نسل کشی کی وحشیانہ صہیونی جنگ کے نتیجے میں سیکڑوں بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو ہسپتال میں لائے شہداء کی لاشوں میں اپنے پیاروں کی نعشیں ملیں تو وہ صدمے سے نڈھال ہوگئے۔
غزہ کی پٹی کے ناصر ہسپتال کے ڈاکٹر احمد النجار بھی ایسی ہی فلسطینی ہیں جنہیں ان کے والدین کے جنازے ہسپتال میں لائے شہداء میں ملے تو وہ اچانک انہیں شہید دیکھ کر سکتے کی حالت میں آگئے۔
جب ڈاکٹر النجار غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس میں ایک گھر پر بمباری کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد جمعرات کی صبح فجر کے وقت ہسپتال میں شہداء کو وصول کررہے تھے کہ انہیں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ بمباری نے ان کے خاندان کے گھر کو نشانہ بنایا ہے۔
کیمروں نے اس لمحے کو قید کر لیا جب ایمبولینس ہسپتال پہنچی، جہاں ڈاکٹر نے اندر سے متاثرین کی لاشیں تلاش کرنے کے لیے ایک دروازہ کھولا۔
صدمے سے نڈھال ڈاکٹر نے دو لاشیں اسٹریچر پر پڑی دیکھی جو خون میں لت پت تھیں۔ وہ کانپتے ہاتھوں اور قدموں کے ساتھ ان کے قریب پہنچا۔ ان میں سے ایک کے چہرے سے کپڑوں اٹھایا تو یہ لمحہ اس پر نجلی بن کر گرا کیوں کہ یہ جسد خاکی ان کے شہید والد کا تھا۔ اس کے بعد اس نے دوسرے جسم سے کپڑا ہٹایا تو یہ ان کی ماں کا جسد تھا۔ یہ دونوں بزرگ فلسطینی تھے جو اپنے گھر میں تھے جب قابض صہیونی وحشی درندوں نے ان کے گھر پر بم گرائے۔
ڈاکٹر النجار اس صدمے کو کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ پیارے والدین کو ایک ساتھ شہید دیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا پھوٹ پڑے اور وہ زارو قطار رونے لگے۔
اگرچہ دیگر ڈاکٹروں اور عملےنے صدمے سے نڈھال ڈاکٹر نجار کو تسلی دی مگر ان کا دکھ وہی جانتے ہیں کیونکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے والدین کے اس طرح چیتھڑوں کی شکل میں جسد خاکی اسے دیکھنا پڑیں گے۔
یہ سانحہ صرف اس کے والدین کی شہادت تک محدود نہیں تھا۔ شہداء میں ایک چھوٹی بچی کی لاش بھی تھی جو اسی بمباری میں شہید ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر النجار کی گوشہ جگر کا وحشیانہ بمباری میں بچی کا سر تن سے جدا ہوچکا تھا۔
یہ واقعہ غزہ کی پٹی کے لیے کوئی نیا نہیں ہے قابض اسرائیل کی جاری نسل کشی کے دوران بہت سے پیرا میڈیکس اور سول ڈیفنس کے اہلکاروں کو ایسے ہی مشکل لمحات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
غزہ میں وزارت صحت نے اعلان کیا کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک نسل کشی سے شہید ہونے والوں کی تعداد 51,355 ہو گئی ہے جبکہ 117,248 زخمی ہو چکے ہیں۔
مارچ کے اوائل میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ یہ معاہدہ، جو 19 جنوری 2025 سے نافذ العمل ہوا، مصر اور قطر نے ثالثی کی اور امریکہ نے اس کی حمایت کی۔
عبرانی میڈیا کے مطابق حماس نے جہاں پہلے مرحلے کی شرائط پر عمل کیا ہے، وہیں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو، جو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دیا گیا ہے نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلےکو آگے بڑھانے سے انکار کردیا تھا۔