Palestine
طوفان الاقصیٰ تاریخ ساز معرکہ، صہیونی ریاست کے گھمنڈ پاش پاش

غزہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) سات اکتوبر سنہ2023ء کودو برس گزر چکے ہیں جب طوفان الاقصیٰ نے صہیونی دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا۔ آج سچائیاں پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہیں۔ جو کچھ غزہ میں ہوا اور اب تک ہو رہا ہے، وہ محض کسی وقتی ردعمل یا جنگی جنون کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ایسی ذہنیت اور سیاسی سوچ کا پردہ چاک ہے جو صہیونی استعماری منصوبے کے گہرے اندر پیوست ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو فلسطینی وجود ہی کا انکار کرتا ہے اور اسے مٹانے کے لیے نسل کشی اور اجتماعی قتل عام کی ایک ایسی لامتناہی سلسلہ چلا رہا ہے جس کی کڑیاں نکبہ1948ء، دَیر یاسین، کفر قاسم، صبرا و شاتیلا کے قتل عام سے جڑتی ہیں، پھر سنہ2018ء کی واپسی مارچوں تک پھیلی ہوئی ہیں، اور آج جاری غزہ کی مکمل تباہی پر منتج ہو رہی ہیں۔
چوبیس مہینے گزرنے کے بعد جب شہداء اور زخمیوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں دسیوں ہزار معصوم بچے شامل ہیں قابض اسرائیل کے ہاتھوں خون کی یہ ہولی تھم نہیں سکی۔ غزہ کی سرزمین، اس کے ہسپتال، سکول، مساجد، کلیسائیں—کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ ہر چیز کو راکھ کر دیا گیا۔ دشمن اپنے جرائم کو جھوٹے بہانوں سے ڈھانپتا رہا، مگر یہ پردہ بھی اب دنیا کے سامنے چاک ہو چکا ہے۔ اب پوری دنیا جان چکی ہے کہ ’’مقاومت‘‘ کو جواز بنا کر جو تباہی مچائی جا رہی ہے، وہ دراصل نسل کشی کے بڑے منصوبے پر پردہ ڈالنے کی ایک چال ہے، تاکہ فلسطینیوں کے وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جا سکے۔
ایک تاریخی انکشاف کی گھڑی
قابض اسرائیل صرف فلسطینیوں پر نہیں چڑھ دوڑا بلکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ، جن میں سرِ فہرست امریکہ ہے، پورے خطے کی جغرافیائی حدود ازسرِنو کھینچنے کی کوشش میں ہے۔ یہ توسیع پسندانہ منصوبہ پورے مشرق وسطیٰ کے امن کو چیر پھاڑ کر رکھ دینا چاہتا ہے۔ اب اسرائیل کا خطرہ محض فلسطینیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی خودمختاری کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ خود بنجمن نیتن یاھو نے جب ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام کی بات کی، تو اس نے دراصل ایک نئی، خاموش عالمی جنگ کا اعلان کیا۔
مگر سات اکتوبر نے فلسطین کو ایک بار پھر عالمی سیاست کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ اس دن نے صہیونی برتری کے اس افسانے کو پاش پاش کر دیا جو دہائیوں سے پروپاگنڈے کے ذریعے دنیا کے ذہنوں میں بٹھایا گیا تھا۔ اسرائیل کا دفاعی نظام، جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، زمین بوس ہو گیا۔ جھوٹ، دھوکے اور فریب پر قائم اس کی تشہیری مشینری کا پول دنیا کے سامنے کھل گیا۔ مغربی طاقتوں کی دوغلی پالیسیاں، جو ہمیشہ قابض اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالتی رہیں، ننگی ہو گئیں۔ سات اکتوبر نے فلسطینی مزاحمت کو ایک ناقابلِ نظرانداز حقیقت کے طور پر دنیا کے سامنے منوایا۔ اس نے عرب و اسلامی شعور کو ازسرِنو زندہ کیا، تعلقات کے جعلی پل پاش پاش کر دیے، اور فلسطین کو ایک بار پھر امتِ مسلمہ کے دل کی دھڑکن بنا دیا۔
مزاحمت کی بہادری، فلسطینی عوام کے ناقابلِ یقین صبر و ثبات، اور آہنی حوصلوں کی وہ تصویریں جو آگ اور خون کے بیچ سے ابھریں، آج دنیا بھر کے آزادمردوں کے لیے ایمان اور حوصلے کی نئی داستان بن چکی ہیں۔ انہی مناظر نے قابض اسرائیل کی درندگی، نازی طرزِ ظلم اور انسان دشمنی کو بے نقاب کر دیا۔
سات اکتوبر کیوں؟ کیا مزاحمت نے قابض اسرائیل کے ردِعمل کی شدت کا اندازہ لگایا تھا؟
غزہ پر مسلط محاصرے کے سترہ برس بعد سات اکتوبر کا دن ایک تاریخی دھماکے کی صورت میں نمودار ہوا۔ وہ محاصرہ جس نے پورے خطے کو ایک کھلی جیل میں بدل دیا تھا، جہاں دو اعشاریہ چار ملین فلسطینی سیاسی، معاشی اور انسانی طور پر دم گھٹنے کے عالم میں جی رہے تھے، جبکہ دنیا کے ضمیر پر مجرمانہ خاموشی طاری تھی۔
طوفان الاقصیٰ دراصل ظلم، تکبر اور محاصرے کے خلاف ایک زوردار چیخ تھی ۔ ایک اعلانِ وجود کہ فلسطینی قوم آج بھی زندہ ہے، سانس لے رہی ہے، اور ذلت و غلامی کے اندھیروں میں بھی عمل کی قوت رکھتی ہے۔ یہ کوئی وقتی حادثہ یا جنونیت پر مبنی مہم نہیں تھی، بلکہ استعمار، قبضے اور جبری تسلط کے اُس طویل تاریخی پس منظر کا فطری تسلسل تھی جو سنہ1948ء کی نکبت سے شروع ہوا۔
مزاحمت کو بخوبی علم تھا کہ اس کے جواب میں ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے، مگر جو کچھ بعد میں سامنے آیا، وہ ہر سیاسی، اخلاقی اور انسانی تصور سے کہیں بڑھ کر تھا۔ قابض اسرائیل نے جو کچھ کیا وہ کسی ’’ردعمل‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ ایک مکمل نسل کشی کا منصوبہ تھا ۔ ایسا منصوبہ جو انسانی فہم سے بالاتر ہے۔
کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ غزہ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین اجتماعی قتل گاہ میں بدل دیا جائے گا۔ کوئی نارمل انسانی ذہن یہ گمان نہیں کر سکتا کہ خود کو ’’ریاست‘‘ کہنے والا ایک وجود اتنی گہرائی میں درندگی، قتل اور تباہی کی انتہا تک جا سکتا ہے۔
تزویراتی فریب… کس نے کس کو دھوکا دیا؟
سات اکتوبر نے قابض اسرائیل کے ’’سکیورٹی شعور‘‘ کی بنیادیں ہلا دیں۔ اس کے فولادی حصاروں، سیمنٹ کی دیواروں اور ٹیکنالوجی کی ناقابلِ تسخیر دیومالائی کہانیوں کو مزاحمت نے ریزہ ریزہ کر دیا۔ طوفانِ اقصیٰ نے ثابت کیا کہ جب ایک قوم آزادی کے عزم پر قائم ہو تو کوئی آہنی باڑ، کوئی حفاظتی نظام، کوئی مصنوعی ذہانت اس کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔
دوسری جانب قابض اسرائیل نے بھی دنیا کو دھوکا دیا۔ اُس نے اپنے جارحانہ منصوبے کو ’’جوابی کارروائی‘‘ کا نام دے کر پیش کیا، حالانکہ وہ ایک پرانا منصوبہ تھا۔ غزہ اور پوری فلسطینی سرزمین کو اہلِ وطن سے خالی کر کے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانا۔ یہ وہی پرانا مکروہ صہیونی ایجنڈا تھا جس نے ہمیشہ زمین کو آبادیاں ہضم کر کے ’’بغیر قوم کی زمین‘‘ بنانے کی کوشش کی۔
طوفانِ اقصیٰ دراصل ایک پیشگی وارننگ تھی، ایک صریح پیغام کہ فلسطینی قوم کو مٹا دینا آسان نہیں۔ اس نے ثابت کر دیا کہ یہ قابض اسرائیل ہی تھا جس کے دل میں ابتدا سے ہی نسل کشی کا ارادہ پنہاں تھا۔ اس لحاظ سے سات اکتوبر اُس ذہنیت کا ’’انکشاف‘‘ تھا، اُس کا آغاز نہیں۔
یوں مزاحمت نے قابض اسرائیل کو اُس کے سب سے حساس میدان میں مات دی — اُس کی نام نہاد سکیورٹی میں۔ اور قابض اسرائیل نے دنیا کو اپنے فریب زدہ بیانیے سے بہکایا تاکہ پہلے سے تیار شدہ قتل عام کو ’’ردِعمل‘‘ کے پردے میں چھپا سکے۔
آخرکار وہ نقاب اتر گیا۔ تزویراتی فریب کا اختتام اس انکشاف پر ہوا کہ صہیونی منصوبہ دراصل نسل کشی پر ہی قائم ہے۔
سات اکتوبر: صہیونی ذہنیت کا پردہ چاک
قابض اسرائیلی قیادت کے بیانات نے انسانیت دشمنی کی وہ انتہا دکھا دی جو شاید تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ انہوں نے نہ صرف فلسطینی انسان کو ’’انسان‘‘ ماننے سے انکار کیا بلکہ اُس کے خون، اُس کے حقِ حیات اور اُس کے وجود کو بھی بے وقعت قرار دے دیا۔
قابض اسرائیل کے سابق وزیرِ جنگ یوآف گالانت کا یہ بیان کہ ’’ہم انسان نما جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور اسی طرح برتاؤ کریں گے‘‘ صرف لفظ نہیں، ایک ذہنیت کا اظہار ہے وہی ذہنیت جو ہر سطح پر فلسطینی کے وجود کو مٹانے کے درپے ہے۔
اسی طرح صہیونی اراکینِ پارلیمان کی زبانوں سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’غزہ کو جلادینا ہی واحد حل ہے‘‘، ’’ہمیں پورے غزہ کو زمین سے مٹا دینا چاہیے‘‘۔
قابض اسرائیل کے وزیرِ خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے اعلان کیا کہ ’’فلسطینی نام کی کوئی قوم موجود نہیں‘‘ اور یہ کہ ’’غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا، وہاں پتھر پر پتھر نہ چھوڑا جائے‘‘۔
صہیونی وزیرِ وراثت عمیحای الیاہو نے تو یہاں تک کہا کہ ’’ہمیں موت سے زیادہ تکلیف دہ راستے تلاش کرنے چاہئیں، قتل کافی نہیں‘‘ — یہ وہ سادیاتی جنون ہے جو قابض اسرائیل کے اقتدار کے ایوانوں میں کھلے عام بولا جا رہا ہے۔
قابض صہیونی رہنماؤں کی درندگی بچوں تک کو نہیں بخشتی۔ رکنِ پارلیمان موشے فیغلن کے الفاظ تھے کہ ’’غزہ کا ہر بچہ دشمن ہے، ہمیں غزہ پر قبضہ کر کے اس کے بچوں کو ختم کرنا ہوگا‘‘۔
ایتمار بن گویر نے کہا کہ ’’ہم ایک گرام بھی امداد داخل نہیں ہونے دیں گے، غزہ کو زمین کے برابر کر دینا چاہیے، وہاں کوئی معصوم نہیں‘‘۔
جبکہ بزلئیل سموٹریچ نے اعتراف کیا کہ ’’غزہ کے لوگوں کو بھوکا مرنے دینا ایک اخلاقی اور درست فیصلہ ہو سکتا ہے‘‘۔
یوں قابض اسرائیل نے کھلے عام بھوک، قحط اور اجتماعی سزا کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا اعلان کر دیا۔
مذاکرات کا فریب
گذشتہ دو برسوں کے دوران مختلف فریقین نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے کئی کوششیں کیں۔ مزاحمتی قوتوں، بالخصوص تحریکِ حماس نے غیر معمولی لچک اور مشکل فیصلوں کا مظاہرہ کیا۔ مگر بنجمن نیتن یاھو کی انتہا پسند حکومت نے جان بوجھ کر ان کوششوں کو ناکام بنایا۔
اس کا مقصد قیدیوں کی رہائی نہیں بلکہ اپنی اندرونی سیاست اور اقتدار کو بچانا تھا۔ قابض اسرائیل نے قطر سمیت ثالث ممالک کی سرزمین پر بھی بمباری کر کے اپنے عزائم عیاں کیے۔
یوں واضح ہو گیا کہ مذاکرات کا ڈھونگ دراصل نسل کشی کو طول دینے اور سیاسی فائدے سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔
یہی نہیں، قابض اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو قتل عام کے پردے کے طور پر استعمال کیا۔ بار بار کی پسپائیاں، اچانک مذاکراتی وفود کی واپسی، اور پھر جنگ کا ازسرِنو آغاز — یہ سب ایک منصوبے کا حصہ تھے۔
سنہ2025ء کے 18 مارچ کو قابض حکومت نے جنگ بندی معاہدے کو سبوتاژ کر کے غزہ پر بھرپور بمباری کی۔ بنجمن نیتن یاھو نے اعلان کیا کہ ’’اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، صرف آگ کے نیچے‘‘۔
ساتھ ہی خوراک، ادویات اور امداد کی ترسیل روک دی گئی، اور غزہ کے عوام پر دانستہ قحط مسلط کر دیا گیا۔
یوں دنیا پر آشکار ہو گیا کہ قابض اسرائیل کے نزدیک مذاکرات محض ایک نقاب تھے، اصل مقصد مکمل تباہی، آبادی کی جبری نقل مکانی اور فلسطین کے نقشے کو طاقت کے زور پر ازسرِنو ترتیب دینا تھا۔
کیا طوفانِ اقصیٰ کی تحسین ہونی چاہیے یا نسل کشی کا مقابلہ؟
طوفانِ اقصیٰ صرف ایک فوجی معرکہ نہیں بلکہ فلسطینی تاریخ کا زندہ استعارہ ہے۔ اس کی تمجید محض جذبات نہیں، ایک فکری مزاحمت ہے — تاکہ شہداء کی قربانیاں فراموش نہ ہوں اور دشمن اپنی سازشوں سے فلسطینی شناخت کو مٹا نہ سکے۔
تاہم تمجید اُس وقت معنی خیز بنتی ہے جب وہ شعور اور عمل کے ساتھ جڑی ہو۔ بصورت دیگر یہ محض جشن بن کر رہ جاتی ہے۔
طوفانِ اقصیٰ کو یاد رکھنا لازم ہے، مگر ساتھ ہی ہمیں جاری نسل کشی کا مقابلہ ہر ممکن سیاسی، سفارتی، قانونی اور انسانی محاذ پر کرنا ہوگا۔
یہ وقت صرف یاد منانے کا نہیں بلکہ عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنے، قابض اسرائیل کے جرائم کو عالمی عدالتوں میں لے جانے اور فلسطینی عوام کی بقا کے لیے اجتماعی جدوجہد کا ہے۔
اصل راستہ یہی ہے طوفانِ اقصیٰ کو ایک علامت اور منصوبہ دونوں کے طور پر زندہ رکھا جائے۔ تاکہ یہ قربانیاں مستقبل کے لیے بنیاد بنیں، مایوسی نہیں۔
طوفانِ اقصیٰ کی کامیابیاں
اول طوفانِ اقصیٰ نے صہیونی منصوبے کے دل پر کاری ضرب لگائی۔ قابض اسرائیل کے اندرونی سماج نے پہلی بار اپنے بقا کے یقین کو متزلزل ہوتے دیکھا۔
اس کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس مشینری کی ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ تصویر ٹوٹ گئی، داخلی انتشار بڑھا، اور عوام کا اپنی قیادت پر اعتماد کمزور پڑ گیا۔
دوم، عالمی سطح پر قابض اسرائیل کی جھوٹی شبیہ بکھر گئی۔ اب دنیا اسے مشرقِ وسطیٰ کی ’’واحد جمہوریت‘‘ نہیں بلکہ نسل کشی، بربادی اور جنگی جرائم کی علامت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
اس کا نام عالمی عدالتِ انصاف اور عالمی فوجداری عدالت کے مقدمات میں درج ہو چکا ہے۔
سوم، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اب کوئی بھی ریاست قابض اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اخلاقی بوجھ سے آزاد نہیں سمجھ سکتی۔ اس کے جنگی جرائم نے اسے عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔
چہارم، صہیونی بیانیے کی اجارہ داری ختم ہو گئی۔
اب دنیا فلسطینیوں کی کہانی سن رہی ہے، قابض اسرائیل کے جھوٹے پروپیگنڈے نہیں۔
پنجم، طوفانِ اقصیٰ نے فلسطین کو عالمی سیاست کے مرکز میں واپس لا کھڑا کیا۔
وہ مسئلہ جو برسوں پس منظر میں دھکیل دیا گیا تھا، آج دوبارہ ہر فورم پر زیرِ بحث ہے۔
ششم، اس نے عرب اور اسلامی شعور کو زندہ کر دیا۔
فلسطین ایک بار پھر امتِ مسلمہ کے دل میں دھڑکنے لگا ہے۔
ہفتم، طوفانِ اقصیٰ نے مزاحمت کی حیثیت کو مستحکم کر دیا — وہ قوت جو قابض اسرائیل کی برتری کے طلسم کو توڑ سکتی ہے۔
ہشتم، اس نے فلسطینی قومی وحدت کو نئی معنویت بخشی۔
طوفان نے بتا دیا کہ دشمن کا ہدف پورا فلسطینی وجود ہے، چاہے وہ غزہ میں ہو یا مغربی کنارے میں۔
نہم، اس نے مغرب کے دوہرے معیار کو بے نقاب کر دیا۔
قابض اسرائیل کے حق میں دی جانے والی اندھی حمایت نے مغربی اقدار کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیا۔
دہم، طوفانِ اقصیٰ نے دنیا کو الفاظ کے نئے معنی سکھائے۔
اب یہ صرف ’’تنازع‘‘ نہیں بلکہ ’’قبضہ‘‘، ’’نسل کشی‘‘ اور ’’جنگی جرائم‘‘ کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔
گیارہواں، اس نے نام نہاد ’’امن‘‘ اور ’’تطبیع‘‘ کے منصوبوں کو چیلنج کر دیا۔
اب واضح ہو گیا ہے کہ فلسطینی حقوق کو نظرانداز کر کے کوئی استحکام ممکن نہیں۔
بارہواں، طوفانِ اقصیٰ نے فلسطین کو ایک بار پھر عالمی مرکزیت بخشی، قابض اسرائیل کو نسل کشی کی ریاست کے طور پر بے نقاب کیا، مزاحمت کو سیاسی و عسکری حقیقت کے طور پر منوایا، اور صہیونی منصوبے کے اندرونی زوال کی بنیاد رکھ دی۔