Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

طوفان الاقصیٰ معاہدےکے تحت فلسطینی مزاحمت نے 1968 اسیران کو آزادی

غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  فلسطینی مزاحمتی دھڑوں نے “ طوفان الاقصیٰ ڈیل” کے تحت قابض اسرائیل کے ساتھ تاریخی قیدیوں کے تبادلے میں 1968 فلسطینی اسیران کو رہائی دلا دی، بدلے میں القسام بریگیڈز نے 20 اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں آزاد کیا۔

نامہ نگاروں کے مطابق 38 بسیں کَرَم ابو سالم چوکی کے راستے غزہ پہنچیں جن میں 1736 وہ فلسطینی اسیران سوار تھے جو سنہ2023ء کی 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی قابض اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ نسل کش جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے تھے۔

غزہ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں فلسطینیوں نے اپنے پیاروں کا استقبال آنسوؤں، تکبیرات اور زغارید کے ساتھ کیا۔ یہ منظر غزہ کی تاریخ کے ان نایاب لمحات میں سے ایک تھا جب قید و بند کی زنجیریں ٹوٹیں اور آزادی کے نعرے گونج اٹھے۔

تمام رہاشدگان انتہائی کمزور اور نحیف نظر آئے، کئی ایک کے اعضا کاٹ دیے گئے تھے اور کچھ جلدی امراض اور اعصابی تھکن میں مبتلا تھے۔ درجنوں کو فوری طور پر خان یونس کے ناصر ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وزارت صحت نے ان کے لیے خصوصی طبی سہولیات فراہم کیں۔

القصام بریگیڈز نے دو مراحل میں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل کیا۔ صبح آٹھ بجے غزہ شہر میں سات اسرائیلی قیدیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جبکہ ساڑھے دس بجے جنوبی غزہ میں دوسری کھیپ کے 13 قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔

ادھر قابض اسرائیلی انتظامیہ نے رام اللہ کے مغرب میں واقع عوفر جیل سے 96 فلسطینی اسیران کو رہا کیا، جو جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے کا حصہ ہے۔ معاہدے کے تحت قیدیوں کا باہمی تبادلہ بین الاقوامی ریڈ کراس کی نگرانی میں انجام پایا۔

رام اللہ کے ثقافتی مرکز میں رہا ہونے والے قیدیوں کا والہانہ استقبال کیا گیا، جبکہ درجنوں بسیں غزہ سے اسیران کو لے کر آئیں۔ کچھ رہاشدگان کو مصر منتقل کیا گیا جیسا کہ ڈیل میں طے کیا گیا تھا۔

اس موقع پر قابض فوج نے حسبِ معمول اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوفر جیل کے قریب جمع فلسطینی شہریوں پر گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل داغے۔ یہ لوگ صبح سویرے ہی اپنے پیاروں کے استقبال کے لیے جمع ہوئے تھے۔ کئی فلسطینی دم گھٹنے سے بے ہوش ہوئے جنہیں موقع پر ہی طبی امداد دی گئی۔

کلب برائے اسیران اور فلسطینی محکمہ امورِ اسیران کے مطابق قابض اسرائیل نے مجموعی طور پر 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جن میں 83 عمر قید یافتہ شامل تھے۔ عوفر جیل سے 83 اور النقب (کتسیعوت) جیل سے 167 اسیران رہا ہوئے۔ کچھ رہاشدگان کو غزہ اور مصر منتقل کیا گیا۔

رہائی پانے والوں میں 24 اسیران القدس سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سب سے پرانا اسیر سمیر ابو نعمہ ہے جو 1986 سے قابض اسرائیل کی قید میں تھا۔ ان 24 میں سے 15 کو جبراً فلسطین سے باہر مصر بھیجا گیا جبکہ 9 اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔

اس طرح القدس سے رہاشدگان کی مجموعی تعداد 199 تک پہنچ گئی جن میں 48 کو زبردستی جلاوطن کیا گیا۔ ان میں سے کچھ ترکیہ جا چکے ہیں۔

قابض ذرائع کے مطابق ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کو بھی رہائی کی متبادل فہرست میں رکھا گیا ہے، جنہیں بنجمن نیتن یاھو اور وزیرِ سکیورٹی یسرائیل کاٹزکی منظوری سے رہا کیا جا سکتا ہے اگر فہرست مکمل نہ ہو۔

دفتر برائے امور اسیران نے کہا کہ “آج کا دن فلسطینی قوم کی جدوجہد میں ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔ یہ ہمارے اسیران کی قربانیوں، طویل جدوجہد اور عزیمت کا ثمر ہے۔ یہ رہائی ان شہداء، اسیران اور مسجد اقصیٰ کے لیے دی گئی وفاداری کی علامت ہے۔”

بیان میں مزید کہا گیا کہ “اس ڈیل کے تحت 250 عمر قید یافتہ اور طویل المدتی سزائیں پانے والے اسیران اور 1718 وہ قیدی رہا کیے گئے جو 7 اکتوبر سنہ2023ء کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔ یہ سب آزادی کی روشنی دیکھنے والے نئے سپاہی ہیں جنہوں نے صہیونی ظلم کے اندھیروں کو چیر دیا۔”

دفتر نے مزید کہا کہ “یہ ڈیل اسیران کی آزادی کے سفر میں ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے اور یہ اس عزم کی تجدید ہے کہ ہم آخری فلسطینی اسیر کی رہائی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔”

فلسطینی عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے ہیروز کا استقبال اس شان سے کریں جس کے وہ مستحق ہیں، کیونکہ یہ قوم کی عزت اور غیرت کی علامت ہیں۔

“ طوفان الاقصیٰ ڈیل” کے تحت غزہ سے گرفتار کیے گئے 1718 اسیران میں دو خواتین اور تین اردنی شہری بھی شامل ہیں: منیر عبداللہ مرعی، ہشام احمد کعبی اور ولید خالد منصور۔

یہ رہائی اس وقت عمل میں آئی جب ریڈ کراس نے حماس سے 20 اسرائیلی قیدیوں کی تحویل کی تصدیق کی، جنہیں دو مرحلوں میں حوالے کیا گیا۔

یہ ڈیل امریکی منصوبے پر مبنی ہے جس کا اعلان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا، جس میں جنگ بندی، قابض فوج کا تدریجی انخلا، قیدیوں کا تبادلہ، انسانی امداد کی فوری فراہمی اور حماس کے غیرمسلح ہونے کی شق شامل ہے۔

تاہم امریکی پشت پناہی کے باوجود قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں نسل کشی کی ایسی مہم شروع کی جس میں اب تک 67 ہزار 806 فلسطینی شہید اور 17 ہزار 66 زخمی ہو چکے ہیں۔ اس قحط اور بھوک کی مہم میں 463 فلسطینی، جن میں 157 بچے شامل ہیں، جان سے گئے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan