غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) خون میں نہایا آسمان، جلتی ہوئی زمین اور انسانیت کے ضمیر پر ایک اور زخم۔ غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں ایسا المیہ رونما ہوا، جس نے ہواؤں کو ساکت، دیواروں کو خاموش اور دلوں کو کرچی کرچی کردیا۔
التحریر ہسپتال کی معصوم جانوں کو زندگی دینے والی ماہر اطفال ڈاکٹر آلاء النجار خود اپنی زندگی کی سب سے ہولناک دکھ اور صدمے سےاس وقت دوچار ہوئیں جب اُن کی گود کے نو پھول، اُن کے آنگن کے چراغ، ایک ہی لمحے میں ایک فاشٹ ، انسانیت سے عاری ، حیوانی صفات سے متصد درندہ ریاست کی افواج قاہرہ کی وحشیانہ بمباری میں خاکستر ہو گئے۔
ڈاکٹر آلا اپنی ڈیوٹی پر تھیں، سفید کوٹ پہنے، ننھے مریضوں کے زخموں پر مرہم رکھ رہی تھیں کہ اچانک اُن کی دنیا ہی جل کر راکھ ہو گئی۔ قابض اسرائیلی درندہ صفت فوج کے جنگی طیاروں نے ان کے گھر کو نشانہ بنایا اور ان کی خوشیوں کا آشیانہ لمحوں میں ملبے، خاک، خون اور آہوں میں بدل گیا۔
غزہ کے قیزان النجار محلے میں ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اس ملبے میں ان کے ننھے منھے بچوں کے معصوم اور بے گناہ بچوں کے اعضاء بکھر گئے تھے۔ وحشت ناک بمباری سے بھڑکی آگ نے نو معصوم بچوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ ان میں سے آٹھ ننھے جسم ایسے جھلسے کہ شناخت ممکن نہ رہی۔ صرف درد، صرف راکھ، صرف صدمے کی انتہا تھی جس پر حیوانیت ننگا ناچ رہی تھی۔
ڈاکٹر آلاء کے شوہر ڈاکٹر حمدی النجار جو خود بھی کم وسائل کے باوجود طب کے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے، شدید زخمی حالت میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا دسواں بچہ آدم موت کے دہانے سے پلٹ آیا، مگر ماں کی گود اجڑ چکی، دل ویران ہو چکا، سانسیں ماتم میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کوئی ایسی ماں اور ہے جو ڈاکٹر آلا ء کے صدمے کا عشر عشیر بھی رکھتی ہو۔ مگر فلسطین کی اس بہادر بیٹی کی ہمت، جرات، حوصلے اور جذ بے کو آفرین ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی مگراپنے ان معصوم جنتی پھولوں کو ابدی جنتوں کا مکین ہونے پر فخر بھی اظہارکیا۔
جب ڈاکٹر آلاء نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی جلی ہوئی لاشیں اسی ہسپتال میں دیکھیں جہاں وہ روزانہ ماؤں کے آنسو پونچھتی تھیں، تو ایک دھاڑ کے ساتھ زمین پر گر گئیں۔
یہ کوئی فلمی منظر نہ تھا، یہ حقیقت تھی۔خون سے لکھی حقیقت، آگ سے جلائی ہوئی، اشکوں سے دھوئی ہوئی حقیقت۔
نو ننھے فرشتے یحییٰ، رکان، رسلان، جبران، ایو، ریفان، سیدین، لقمان اور سدرا جن کی آنکھوں میں خواب تھے، ہنسی تھی، امید تھی، سب ایک لمحے میں صہیونی درندگی کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔
اس وحشت اور درندگی کو بیان کرنے کے لیے لغت میں الفاظ نہیں اور اس ظلم پر دنیا کی مجرمانہ منافقت اور خاموشی نہتے بچوں کے قاتلوں کے جرم سے بڑا اور بھیانک جرم ہے۔ کیا دنیا اس لیے چپ ہے کہ یہ کسی عرب بادشاہ، کسی حکمران، کسی شہزادے، کے جگر گوشے نہیں بلکہ ایک بے بس و لاچار فلسطینی ماں کے لخت ہائے جگر تھے۔
یقینا یہ سنگین جرم اور ہولناک قتل عام دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو اس وقت کہرام برپا ہوتا، پوری دنیا اتھل پتھل ہوچکی ہوتی اور ایسی درندگی کا مظاہرہ کرنے والے حیوانوں کے خلاف پوری کی پوری فوجیں حرکت میں آچکی ہوتیں، مگر ڈاکٹر آلا ان لوگوں میں شامل نہیں جن کے لیے دنیا بولے، جن کے دکھوں اور زخموں پر مرہم رکھے۔ یہ اس دنیا اور اس کے نام نہاد انسانی حقوق کے علم برداروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ وہ کس برتے پر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ دنیا میں تو حیوانوں کے بھی حقوق ہیں۔ چرند پرند اور درختوں کےلیے بھی آوازیں اٹھتی ہیں مگر فلسطینی بچوں کے بے رحمانہ قتل عام پر پوری دنیا کی زبان گنگ ہے۔
ڈاکٹر منیر البرش ڈائریکٹر جنرل وزارت صحت غزہ نے کہا کہ“یہ صرف ایک ماں کا دکھ نہیں، یہ پورے غزہ کا نوحہ ہے۔ یہاں صرف ڈاکٹر اور نرسیں نہیں مارے جا رہے، یہاں انسانیت سسک رہی ہے، یہاں زندگی سے امید چھینی جا رہی ہے”۔
خان یونس کے گلی کوچے کئی ہفتوں سے شعلوں میں لپٹے ہوئے ہیں اور شہداء کی گنتی سینکڑوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ بچوں کے لاشے اور ماؤں کی چیخیں اس خطے کی خاموش گواہی بن چکی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہر لفظ، ہر تصویر، ہر آہ نے دلوں کو چیر دیا۔ دنیا نے ایک بار پھر آنکھیں موند لیں، جیسے بچوں کے جسموں کی راکھ سے دھواں نہیں، خامشی نکلتی ہو۔
طبی عملہ جو زندگی کا آخری سہارا ہوتا ہے اب خود موت کا پہلا ہدف بن چکا ہے۔ ڈاکٹر حسام ابو صفیہ جو کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر تھے ان کا بیٹا صرف اس لیے شہید کر دیا گیا کیونکہ وہ ہسپتال خالی کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ پھر خود ان پر صوتی بم پھینکے گئے، تشدد کیا گیا، لیکن وہ اپنی جگہ سے ہٹے نہیں۔
ڈاکٹر عدنان البرش، غزہ کے مایہ ناز ہڈیوں کے ماہر اسرائیلی قید میں اذیتوں کے بعد شہید کر دیے گئے۔
یہ کوئی انفرادی حادثات نہیں، یہ ایک طے شدہ منصوبہ ہے، جس کے تحت قابض اسرائیل غزہ کے ہر مسیحا کو خاموش کر دینا چاہتا ہے، ہر چیخ کو دبانا چاہتا ہے، ہر امید کو جلا دینا چاہتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق یہ قتل عام منظم انداز میں کیا جا رہا ہے، تاکہ غزہ کو ایک ایسی جگہ بنا دیا جائے جہاں زندگی ممکن ہو، نہ علاج، تعلیم، نہ انسانیت۔
ڈاکٹر عمر فروانہ جن کے گھر پر حملہ ہوا اور ان کے 16 اہل خانہ شہید ہو گئے۔ ڈاکٹر مدحت صیدم، ڈاکٹر یوسف ابو جاد اللہ، ڈاکٹر ہمام اللوح، ڈاکٹر رأفت لبد، ڈاکٹر ایمن، ڈاکٹر عبد الکریم جواد، ڈاکٹر حسن حمدان سب اس خون آلود فہرست میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسروں کو بچاتے بچاتے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔
کیا دنیا کے لیے یہ کافی نہیں کہ ایک ڈاکٹر، اپنے گھر میں دفن کر دیا جائے؟ کیا انسانیت اتنی سستی ہو چکی ہے کہ نو معصوم بچوں کی چیخیں بھی کوئی فرق نہ ڈال سکیں؟
قابض اسرائیل نے نہ صرف ہسپتالوں کو نشانہ بنایا، بلکہ ان ڈاکٹروں کے گھروں کو بھی تباہ کیا، جو اپنے بچوں کو الوداع کہنے کا وقت بھی نہ پا سکے۔
انیس ماہ سے امریکہ اور مغرب کی مکمل سیاسی اور عسکری پشت پناہی سے جاری اس نسل کشی میں اب تک 176,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ ہزاروں لاپتہ اور لاکھوں بے گھر ہیں۔
اور اس سب کے بیچ، ڈاکٹر آلاء النجار، ایک ماں، جو دوسروں کے بچوں کو بچاتی رہی، آج اپنے نو جگر گوشوں کی راکھ سمیٹ رہی ہے۔ مگر دنیا دنیا اب بھی خاموش ہے۔