غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے اور کئی دیگر ممالک کی جانب سے جلد ہی اسی اقدام کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ حماس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ صرف اعتراف پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
حماس نے اپنے بیان میں اس اقدام کو ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اعتراف ہمارے عوام کے اپنی سرزمین اور مقدسات پر ناقابل تنسیخ حق کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ہمارے صبر و استقامت، قربانیوں اور آزادی و واپسی کے سفر میں دیے گئے نذرانوں کا عملی اعتراف ہے جس کا مقصد آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اور اس کی دارالحکومت القدس ہے۔
حماس نے اس امر پر زور دیا کہ یہ اعتراف عملی اقدامات کے ساتھ جڑا ہونا چاہیے، جو فوری طور پر فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کو روکے اور غرب اردن و القدس میں جاری قبضے، الحاق اور یہودیانے کے منصوبوں کو ناکام بنائے۔
حماس نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اس کے اداروں پر زور دیا کہ قابض اسرائیل کو مکمل طور پر الگ تھلگ کر دیا جائے، اس کے ساتھ ہر طرح کے تعاون اور روابط منقطع کیے جائیں، اس کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کیا جائے اور اس کے جنگی مجرم رہنماؤں کو عالمی عدالتوں میں لے جا کر انسانیت کے خلاف جرائم پر جواب دہ بنایا جائے۔
حماس نے یہ بھی کہا کہ قابض اسرائیل کی حکومت بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کو روندتے ہوئے کھلے عام نسل کشی، نسلی تطہیر اور جبری بے دخلی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ ایسے میں دنیا کو دوٹوک اور عملی موقف اپنانا ہوگا تاکہ اس کے ان جرائم پر لگام ڈالی جا سکے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد ایک فطری اور جائز حق ہے جسے عالمی قوانین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی پشت پناہی کریں تاکہ وہ اپنے حق خودارادیت کو حاصل کرتے ہوئے آزاد ریاست فلسطین قائم کر سکیں جس کی دارالحکومت القدس ہو۔
اتوار کے روز فلسطینی ریاست کے حق میں یہ عالمی اعترافات سامنے آئے تاہم ان پر کچھ شرائط بھی عائد کی گئیں، جن میں حماس کو سیاسی منظر نامے سے دور رکھنے اور فلسطینی اتھارٹی میں اندرونی اصلاحات پر زور دینا شامل ہے۔
جہاں فلسطینی اتھارٹی نے ان اعترافات کا خیر مقدم کیا وہیں قابض اسرائیل میں شدید غصے کی کیفیت دیکھی گئی اور وہاں سے ایسے بیانات سامنے آئے جن میں ان اعترافات کے جواب میں عملی اقدامات کی دھمکیاں دی گئیں۔