تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
دو جنوری کی شام کو لبنان کے دارلحکومت بیروت کے ایک گنجان آباد علاقہ ضاحیہ میں صالح العاروری کو اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر چھ ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ صالح العاروری ہمیشہ سے غاصب صیہونی حکومت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھے اور شہادت کے بعد بھی غاصب حکومت کے لئے ڈراؤنا خواب ہی رہیں گے۔یقینا شہید صالح ہمیشہ سے ایسی ہی شہادت کے طالب تھے اور آخر کار انہوں نے دنیا کے خبیث ترین دشمن کے ہاتھوں شہادت حاصل کی۔
شہید صالح العاروری جو کہ فلسطین کے مغربی کنارے سے تعلق رکھتے تھے۔ مورخہ 19اگست 1966کو رام اللہ کے شمال مغربی علاقہ ارورا میں پیدا ہوئے۔ زمانہ نوجوانی سے ہی غاصب صیہونی قبضہ کے خلاف تھے اور اپنے وطن کی آزادی کا جذبہ دل میں لے کر جوانی کی سرحد تک پہنچے۔ الخلیل یونیورسٹی سے شریعہ فیکلٹی میں ڈگری حاصل کی اور سنہ 1987ء میں باقاعدہ طور پر حما س میں شمولیت اختیار کی۔حماس میں شمولیت کے بعد سنہ1991اور سنہ 1992ء میں انہوں نے حماس کے عسکری ونگ القسام کوترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیااور القسام کے بانیوں میں شمار ہوئے۔
شہید صالح العاروری فلسطین کی اس نسل سے ہے کہ جس نے صیہونی تسلط کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ غاصب صیہونی حکومت کا خاتمہ صرف اور صرف فلسطینی عوام کی مسلح مزاحمت کے نتیجہ میں ممکن ہے۔
شہید صالح العاروری کو کئی مرتبہ غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے گرفتار کیا گیا لیکن کبھی بھی ان پر کوئی جرم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔العاروری کو سنہ1985سے 2007تک کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا اور مجموعی طور پر انہوں نے زندگی کے انیس سال غاصب صیہونی جیلوں میں گزارے ہیں۔آخری مرتبہ ان کوسنہ2007کے بعد دودبارہ گرفتار کیا گیا تھا اور پھر سنہ2010ء میں صیہونی حکومت کی جانب سے رہائی ملی جس کے بعد ان کو فلسطین بدر کر دیا گیا تھا۔
شہید صالح العاروری اس زمانہ میں فلسطینی قیدیوں کے تبادلہ سے متعلق بھی جیل میں رہتے ہوئے اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ اس زمانہ میں حماس کے ایک اور سرکردہ رہنما ٰیحیٰ سنوار بھی جیل میں تھے۔ یہ دونوں ہی عبرانی زبان پر بھی مہارت رکھتے تھے۔اطلاعات کے مطابق حماس اور اسرائیل کے مابین 1027فلسطینی قیدیوں کے تبادلہ کے لئے العاروری اور سنوار نے صحرائے نقب میں واقع صیہونی جیل میں حماس رہنماؤں سے ملاقات کی تھی اور قیدیوں کے تبادلہ کے انتظامات کو حتمی شکل دی گئی تھی۔
فلسطینی قیدیوں کے تبادلہ کے بعد غاصب صیہونی حکومت کی سپریم کورٹ نے صالح العاروری کو فلسطین بدر کرنے کا حکم جاری کیا تھا جس کے بعد وہ فلسطین سے نکل کر ترکی چلے گئے تھے۔
شہید صالح العاروری کو 2015ء میں ترک صدر طیب اردگان کے حکم پر ترکی بدر کر دیا گیا کیونکہ اسرائیل نے ترک صدر سے درخواست کی تھی کہ صالح العاروری کو ترکی میں نہ رکھا جائے لہذا اپنے تعلقات قائم رکھنے کے لئے ترک صدر نے صالح العاروری کو ترکی سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ ترکی سے نکل کر صالح العاروری قطر چلے گئے جہاں پر ان کے لئے مشکلات کم نہ ہوئیں بلکہ کچھ عرصہ بعد ہی یہاں سے بھی امریکہ اور اسرائیل کے کہنے پر قطر نے ان کو ملک چھوڑنے کاکہہ دیا۔ قطر کے بعد اگلی منزل ملائشیا تھی جہاں پر بھی ان کو امریکی دباؤ کے بعد نکال دیا گیااور آخر کار شہید صالح العاروری لبنان آ پہنچے جہاں ان کو حزب اللہ نے اپنے ہم ترین مرکزاور علاقہ ضاحیہ میں پناہ دی اور شہادت تک شہید صالح العاروری لبنان میں ہی رہے۔
صالح العاروری سنہ2010میں حماس کے سیاسی شعبہ کے رکن اور پھر سنہ2017ء میں حما س کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ ان کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کہ یہ القسام کے بانیوں میں سے بھی تھے تاہم فوجیوں کاروائیوں کی نگرانی اور قیادت ان کے ذمہ تھی۔صالح العاروری کے ایران کے ساتھ بہت اچھے اور قریبی تعلقات تھے۔جس وقت ان کو تحریک کے سب سے بڑے عہدے پر منتخب کیا گیا تھا رپورٹس کے مطابق ان دنوں اس انتخاب سے قبل وہ تہران میں اعلیٰ فوجی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں مصروف تھے اور اسی طرح انہوں نے انہی دنوں میں لبنان میں حزب اللہ کے سربرا ہ سید حسن نصر اللہ کے ساتھ عوامی سطح پر ملاقات بھی کی تھی۔حال ہی میں سنہ2021ء میں صالح العاروری کو فلسطین کے مغربی کنارے میں حماس کا سربراہ بھی منتخب کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ فلسطین کے مغربی کنارے میں جاری مسلح مزاحمت کے ماسٹر مائنڈ بھی شہید صالح العاروری ہی ہیں کہ جنہوں نے سالوں کی محنت کے بعد مسلح مزاحمت کو غزہ سے نکال کر غاصب صیہونی حکومت کے قلب یعنی مغربی کنارے میں منتقل کیا اور صیہونی حکومت کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا اور آج تک مغربی کنارے میں مزاحمت صیہونی افواج سے نبرد آزما ہے۔
شہید صالح العاروری حما س کے فلسطین سے باہر موجود رہنے والے واحد رہنما ہیں کہ جن کو سات اکتوبر کو غاصب صیہونی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے طوفان الاقصٰی آپریشن کی تمام معلومات حاصل تھیں۔ آپریشن کے چند دنوں بعد ہی صالح العاروری نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے ساتھ جہاد اسلامی فلسطین کے سربراہ زیاد النخالہ کے ہمراہ ملاقات کی اور آپریشن سے متعلق خصوصی گفتگو اور مستقبل میں مزاحمت کی حکمت عملی سے متعلق بات چیت کی۔ بعد ازاں ان کی تصویریں ذرائع ابلاغ پر نشر ہوئیں۔
شہید صالح العاروری حما س میں حزب اللہ کے ساتھ اہم رابطہ کار تھے۔ان کے حزب اللہ کے ساتھ مضبوط اور قریبی تعلقات تھے۔شہید صالح العاروری لبنان میں بھی القسام کے سرکردہ رہنما تھے اور فلسطینی مزاحمت کے جوانوں کی قیادت کرتے تھے۔شہید العاروری طویل مدت تک غاصب صیہونی حکومت کو مطلوب رہے۔غاصب اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں ہونے والی فلسطینی نوجوانوں کی مزاحمت کو العاروری کا کارنامہ سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل میں العاروری کو ایک ڈراؤنا خواب کہا جاتا تھا۔اسرائیلی میڈیا نے بھی انہیں ڈراؤنا خواب کا لقب دیا تھا۔دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد حکومت امریکہ نے العاروری جیسے مزاحمتی ہیرو کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے العاروری کے قتل پر پچاس لاکھ ڈالرز کا انعام بھی رکھا گیاتھا۔