تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سات اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والا طوفان الاقصیٰ جاری ہے۔ اس طوفان نے جہاں ایک طرف غاصب صیہونی حکومت کو شکست سے دوچار کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ غاصب صیہونی حکومت کی نابودی کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک ڈالی ہے۔ طوفان اقصیٰ کے آغاز کے بعدسے ہی امریکی حکومت نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو بھرپور حمایت اور مسلح مدد فراہم کی۔یہاں تک کہ غزہ میں نہتے شہریوں کا قتل عام کرنے کے لئے آپریشن کی منصوبہ بندی میں امریکی حکومت اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کی شمولیت رہی۔ آ ج مورخہ 26مارچ کو سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرار داد منظور کر لی گئی ہے۔کئی ایک قرار دادوں کو ویٹو کرنے کے بعد آج آخر کار امریکی حکومت ن اس قرارداد کو ویٹو نہیں کر سکی بلک ہووٹنگ کے عمل میں غیر حاضر رہی۔
سلامتی کونسل میں منطور ہونے والی اس قرار داد کے بعد بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ کیا امریکہ سلامتی کونسل میں اس قرار داد کو ویٹو نہ کر کے بتیس ہزار فلسطینی عوام کا خون اپنے ہاتھوں سے صاف کرنا چاہتا ہے؟کیا امریکی حکومت کے اس عمل سے فلسطینیوں کو کوئی ریلیف مل پائے گا؟ حالانکہ اس قرارداد سے قبل متعدد جنگ بندی کی قراردادوں کو امریکی حکومت نے ڈھٹائی کے ساتھ ویٹو کیا ہے۔ بہر حال امریکی حکومت کچھ بھی کر لے تاریخ کے اوراق سے یہ بات مٹائی نہیں جا سکتی کہ غزہ میں بتیس ہزار معصوم انسانوں کا قتل عام اور غزہ کے عوام کی منظم نسل کشی صرف اور صرف امریکی ایماء اور حمایت پر کی گئی ہے۔فلسطینی عوام اور دنیا بھر کے عوام بالخصوص امریکی عوام بھی اپنی حکومت کے اس گھناؤنے جرم کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
سلامتی کونسل میں امریکی حمایت کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد تو منطور ہوئی ہے لیکن غاصب صیہونی حکومت کہ جس کو سنہ1947ء میں اسی اقوام متحدہ نے فلسطین پر غاصبانہ تسلط کا لائسنس جاری کیا تھا تاہم آج تک یہ غاصب ریاست کبھی بھی اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کو ماننے سے انکاری ہے۔لہذا عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی ہٹ دھرمی اور دہشت گردانہ روش کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سلامتی کونسل کی یہ قرار داد بھی صیہونی غاصب ریاست ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔ قرار داد کے بعد سے غاصب اسرائیل نے غزہ پر جارحیت اور حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اب یہاں سوال خود سلامتی کونسل کی کارکردگی پر بھی اٹھے گا۔کیا سلامتی کونسل اس قابل ہے کہ افغانستان، یمن، عراق، شام اور یمن کی طرح سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بہانہ بنا کر اسرائیل کے خلاف فوجی آپشن استعمال کرے گی؟ کیا یہاں نیٹو ممالک کا الائنس طاقت کے زور پر اسرائیل کو مجبور کرنے میں کامیابی حاصل کرے گا؟ یہ سارے ایسے سوالات ہیں جن کے جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہیں۔
دنیابھر میں سلامتی کونسل کی غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد کی منظوری کے عمل کو مثبت انداز میں لیا جا رہاہے اور ایک خوش آئند اقدام تصور کیا جا رہاہے لیکن سب یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کسی کے پاس یہ اختیار موجود نہیں ہے کہ وہ غاصب اسرائیل کو پابند کرے۔
پہلے ہی کافی دنوں سے امریکی اور اسرائیلی غاصب حکومت کے مابین سخت اختلافات ہیں۔ اسی طرح خود امریکی حکومت کے عہدیداروں کے مابین بھی غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے پر آپسی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ مغربی دنیا کے عوام مسلسل احتجاج میں امریکی و برطانوی حکومتوں سمیت یورپ کی حکومتوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹہرا رہی ہیں۔ امریکہ تاریخ کے بد ترین دور میں داخل ہو چکا ہے۔ یمن میں امریکی اور برطانوی طاقت کا گھمنڈ پہلے ہی بحیرہ احمر میں غرق ہو چکا ہے۔
بہر حال حماس نے بھی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ حماس قیدیوں کے تبادلہ اور غزہ میں مکمل جنگ بندی کے لئے تیار ہے۔ ساتھ ساتھ حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی آزاد نقل و حرکت کو یقینی بنایا جائے۔ غاصب صیہونی فوجیوں کو غزہ سے نکلنا چاہئیے۔ لیکن دوسری طرف غاصب صیہونی حکومت ہے جس نے واضح طور پر سلامتی کونسل کی قرارداد کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ غزہ مستحکم کھڑا ہے۔ گزہ کی مزاحمت نے آج بڑی بڑی نام نہاد سپر طاقتوں کے پیر اکھاڑ دئیے ہیں۔ فلسطینی قوم ہر میدان میں کامیاب ہو رہی ہے۔ فلسطین کے دشمن ہر میدان میں ذلیل اور رسوا ہو رہے ہیں۔سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظور ی بھی حقیقت میں امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم سلامتی کونسل کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیں، فلسطینیوں کی مدد کریں، فلسطینیو ں کے دکھ اور درد کا مداوا کریں۔ یہی ماہ رمضان المبار ک کے مہینہ کا درس ہے اس لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس مہینہ کو فلسطین کے مہینہ کا نام دیا گیا ہے۔