نیویارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی میں قرارداد متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی گئی ، قرارداد کے حق میں 143ممالک نے ووٹ دیا، امریکا، اسرائیل، ارجنٹائن اور ہنگری سمیت نو ممالک نے مخالفت کی جبکہ 25 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے فلسطینیوں کی کوششیں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں کے آغاز کے سات ماہ بعد سامنے آئی ہیں اور ایک ایسے وقت میں کہ جب اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم بستیوں میں توسیع کر رہا ہے، جسے اقوام متحدہ نے غیر قانونی عمل قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ ووٹنگ کے بعد فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت تو نہیں ملی تاہم فلسطین کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننے کا اہل تسلیم کر لیا گیا ہے، اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ‘‘ریاض منصور نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’کہ ہم امن چاہتے ہیں اور ہم آزادی چاہتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیل نے جمعے کو رفح پر بمباری کی ہے۔ قبل ازیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مذاکرات کاروں نے فائر بندی کے لیے کسی معاہدے پر پہنچے بغیر بات چیت چھوڑ دی۔
اے ایف پی کے نمائندوں نے رفح پر توپ خانے سے کی جانے والی گولہ باری کا اس موقعے پر مشاہدہ کیا جب امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر جنوبی غزہ شہر پر بڑا حملہ کیا گیا تو اسرائیل کے لیے توپوں کے گولے اور دیگر ہتھیاروں کی فراہمی روک دی جائے گی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ بائیڈن نے اسرائیل پر امریکہ کا حتمی دباؤ بڑھایا اور سالانہ تین ارب ڈالر کی مجموعی فوجی امداد بند کرنے کی بات کی۔ قبل ازیں امریکہ نے اسرائیل سے رفح سے باہر رہنے کی بار بار اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ ’حمایت میں ووٹ فلسطینی وجود کے لیے ووٹ ہے، یہ کسی بھی ریاست کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ امن کے لیے سرمایہ کاری ہے۔‘ ان کے ریمارکس پر تالیاں بجائی گئیں کہ ’حمایت میں ووٹ دینا صحیح کام ہے‘۔
دوسری جانب اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر گیلاد اردان نے جنرل اسمبلی میں پیش کر دہ اس قرار داد کے مسودے کی مذمت کی ہے، اسرائیلی سفیر کے مطابق اس قرار داد کی منظوری کی صورت میں فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت اور حقوق مل جائیں گے جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہو گی۔
جنرل اسمبلی میں فلسطینی رکنیت کی حمایت میں ووٹنگ کے بعد اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’اقوام متحدہ اور زمینی سطح پر یکطرفہ اقدامات سے دو ریاستی حل کی طرف پیش قدمی نہیں ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ووٹ فلسطینی ریاست کی مخالفت کی عکاسی نہیں کرتا، ہم بہت واضح ہیں کہ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بامعنی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بجائے، یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ریاست کا درجہ صرف اس عمل سے آئے گا جس میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات شامل ہوں۔‘
جنرل اسمبلی کے 140 اراکین پہلے ہی فلسطین کو بطور ریاست قبول کر چکے ہیں ، فلسطین کو مکمل رکن بنانے کی قرارداد امریکہ نے سلامتی کونسل میں ویٹو کر دی تھی۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ اس موضوع پر قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا، جس کی وجہ سے فلسطین کی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کا مطالبہ کھٹائی میں پڑ گیا، امریکہ اسرائیل کا ازلی سرپرست اور سب سے بڑا اتحادی ملک ہے، اس ناطے امریکہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے سات ماہ کے دوران بھر پور انداز میں اسرائیل کا ساتھ دیا ہے ۔