غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )قابض اسرائیل نے غزہ پر مسلط کی گئی نسل کش جنگ کے آغاز ہی سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے تمام راستے بند کر دیے ہیں، تاکہ دنیا کی آنکھوں سے غزہ کے زخموں کی سچائی اوجھل رہے۔ دو برس سے زائد عرصے کی اس مسلسل درندگی اور تباہی کے باوجود اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ بدستور حکومت کو مہلت پر مہلت دے رہی ہے، تاکہ صحافیوں کے داخلے سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ مؤخر رکھا جا سکے۔ یہ طرزِ عمل اسرائیلی نظام میں موجود ایک منظم سازش کو ظاہر کرتا ہے جو میڈیا کی تنہائی اور جرائم کے شواہد مٹانے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔
قابض اسرائیل اس پابندی کو ’’سکیورٹی وجوہات‘‘ کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی تنظیمیں اسے دانستہ کوشش قرار دے رہی ہیں جس کا مقصد سچائی کو دفن کرنا اور دنیا کے سامنے اپنی جھوٹی کہانی کو مسلط کرنا ہے۔
کمیٹی برائے تحفظِ صحافیان (CPJ) نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی عدالت کا فیصلہ عالمی میڈیا کو غزہ کی تباہی اور انسانی بحران کی رپورٹنگ سے مسلسل دور رکھتا ہے۔ کمیٹی کے مطابق قابض حکومت نے اس معاملے پر فیصلہ سنانے میں سات بار تاخیر کی اور اس کے بعد بھی مزید مؤخر کرنے کی درخواست دی ہے۔
کمیٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ یہ پابندیاں ہٹائی جائیں، کیونکہ اس طرح کی قدغنیں صحافت کی آزادی اور عوام کے حقِ معلومات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
کمیٹی کی سربراہ جُوڈی جینسبیرگ نے کہا کہ’’یہ ناقابلِ قبول ہے کہ غیرملکی صحافیوں کو اتنے طویل عرصے سے غزہ میں آزادانہ رپورٹنگ سے روکا جا رہا ہے۔ عوام کے جاننے کے حق کو سیاسی یا سکیورٹی بہانوں کے پیچھے نہیں چھپایا جا سکتا‘‘۔
عدالت کی آخری سماعت میں اسرائیلی اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ’’غزہ کی صورتحال بدل چکی ہے‘‘ مگر اس نے ایک ماہ کی مزید مہلت مانگی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل ’’صحافیوں کے لیے فوجی رہنمائی کے ساتھ دوبارہ داخلے‘‘ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
لیکن کمیٹی برائے تحفظِ صحافیان نے اسرائیلی فوج کی اس ’’رہنمائی‘‘ کو محض ایک پروپیگنڈا حربہ قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق قابض فوج کے ساتھ جانے والے صحافیوں کو صرف چند گھنٹوں کے لیے محدود علاقوں میں جانے دیا جاتا ہے، وہ آزادانہ نقل و حرکت یا فلسطینی شہریوں سے بات نہیں کر سکتے، اور یہ عمل آزاد صحافت کے عالمی معیارات کے سراسر منافی ہے۔
پروپیگنڈہ ٹول
ادھر اتحادِ نشریاتِ یورپ (EBU) جو 56 ممالک کی 113 میڈیا تنظیموں پر مشتمل ہے نے بھی قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں صحافیوں کے داخلے پر عائد پابندیاں ختم کرے، کیونکہ ایسی قدغنیں آزادی صحافت، شفافیت اور جواب دہی کے اصولوں کے منافی ہیں۔
اتحاد نے اپنے بیان میں کہاکہ ’’صحافی دنیا کی آنکھیں اور کان ہیں۔ ان کی موجودگی سچائی کو دستاویزی شکل دینے اور انسانی ضروریات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ناگزیر ہے‘‘۔
من گھڑت بہانے
گزشتہ جون میں دنیا بھر کی دو سو سے زائد میڈیا تنظیموں نے ایک مشترکہ خط کے ذریعے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ غیرملکی صحافیوں کو غزہ تک غیر مشروط رسائی دی جائے۔
دسمبر سنہ2023ء میں غیرملکی صحافیوں کی نمائندہ ایسوسی ایشن نے اسرائیلی عدالت سے غزہ میں داخلے کی اجازت مانگی تھی، مگر قابض حکام نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ صحافیوں کا داخلہ ’’فوجیوں کے لیے خطرہ‘‘ بن سکتا ہے۔ عدالت نے جنوری سنہ2024ء میں اسی مؤقف کی توثیق کی اور بعد ازاں فروری سنہ2025ء میں بھی یہی مؤقف دہرایا۔
’’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘‘ کے سیکریٹری جنرل تیبو بروتان کے مطابق فلسطینی میڈیا اداروں کی تباہی اور غیرملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی اس بات کا ثبوت ہے کہ قابض اسرائیل زمینی حقائق کو چھپانا چاہتا ہے۔
صحافتی تصور مجروح
انہوں نے کہا کہ یہ قدغنیں بین الاقوامی میڈیا کو حقائق کی تصدیق سے روکتی ہیں اور غیرجانبدار صحافت کے تصور کو مجروح کرتی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل کے بہانے کمزور اور بے بنیاد ہیں، حکومت کو یہ حق نہیں کہ وہ صحافیوں کے فیصلے کی جگہ خود فیصلہ کرے۔
بین الاقوامی میڈیا اب بھی فلسطینی نامہ نگاروں پر انحصار کر رہا ہے جو نہایت مشکل حالات میں غزہ کے اندر سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ قابض اسرائیل ان بہادر صحافیوں پر جانبداری کے الزامات لگا کر ان کی قربانیوں کو داغدار کرنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ وہی دنیا کو سچ دکھا رہے ہیں۔
’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی مصنفہ ستاف لیفاتون نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ غیرملکی صحافیوں کو غزہ میں صرف فوجی نگرانی کے تحت چند گھنٹوں کے لیے داخل ہونے دیا جاتا ہے، جہاں انہیں عام فلسطینیوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
غزہ میں مقامی صحافیوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق اب تک 254 فلسطینی صحافی قابض فوج کے فضائی حملوں اور براہِ راست نشانہ بنائے جانے کے باعث شہید ہو چکے ہیں۔
لیفانون کے مطابق اسرائیلی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ دنیا میں اس کے بارے میں کیا تاثر بن رہا ہے، اسی لیے وہ غیرملکی صحافیوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی خبریں منظرِ عام پر آنے سے بچنا چاہتی ہے۔
خبری خلا
غزہ میں آزادی صحافت پر یہ طویل محاصرہ ایک ایسے ’’خبری خلا‘‘ کو جنم دے چکا ہے جس میں حقائق بگڑے ہوئے اور ادھورے دکھائی دیتے ہیں۔ غیرملکی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کی سربراہ تانیا کرائمر کے مطابق قابض اسرائیل کی پابندیوں نے معتبر خبروں کا سلسلہ منقطع کر دیا ہے اور اب بیشتر خبریں شہری صحافیوں کی سوشل میڈیا پوسٹوں پر منحصر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ’’فلسطینی صحافیوں پر اب نہ صرف خبروں کی ذمہ داری ہے بلکہ اپنی بقا کی جنگ بھی۔ اگر ان کی آواز بند کر دی گئی اور غیرملکی صحافیوں کو بھی داخل ہونے سے روکا گیا تو سچائی کا بہاؤ مکمل طور پر رک جائے گا۔‘‘
ادارہ جاتی ملی بھگت
یورپی-بحری حقوقی تنظیم “یورو مڈل ایست مانیٹر” نے کہا کہ غیرملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی قابض اسرائیل کی دانستہ پالیسی ہے جس کا مقصد اپنی بنائی گئی جھوٹی داستان کو دنیا پر مسلط کرنا ہے۔
تنظیم کے مطابق اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے حکومت کو دی جانے والی مزید مہلت دراصل ایک ’’ادارہ جاتی گٹھ جوڑ‘‘ ہے، جس کے ذریعے عدلیہ، انتظامیہ اور فوج مل کر شفافیت کو دبانے اور جرائم کے شواہد مٹانے کا کام کر رہے ہیں۔
ادارہ مزید کہتا ہے کہ غزہ کے بڑے حصے کو ایک بند علاقہ بنا دیا گیا ہے جہاں نہ محققین جا سکتے ہیں نہ امدادی کارکن اور نہ ہی آزاد صحافی، تاکہ سچائی ہمیشہ کے لیے چھپا دی جائے۔
ان تمام اقدامات کے ذریعے قابض اسرائیل نے نہ صرف بین الاقوامی قانونِ انسانیت بلکہ عالمی عدالتی فیصلوں کی بھی کھلی خلاف ورزی کی ہے جو قابض قوتوں کو ثبوت محفوظ رکھنے اور ان کے ضیاع سے بچانے کا پابند بناتے ہیں۔
