غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطینی پناہ گزینوں کی غم زدہ تاریخ کے سائے میں اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین “انروا” نے ایک بار پھر مظلوم فلسطینیوں سے عہد دہراتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک انہیں ایک منصفانہ حل نہیں مل جاتا، تب تک ان کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
یہ بیان اقوامِ متحدہ کی اس ایجنسی نے ایک پیغام میں دیا، جو اس نے سماجی پلیٹ فارم “ایکس” پر عالمی یومِ پناہ گزینان کے موقع پر جاری کیا۔ یہ دن ہر سال 20 جون کو دنیا بھر میں ان لاکھوں افراد سے اظہارِ ہمدردی کے لیے منایا جاتا ہے، جو زبردستی اپنے گھروں سے نکالے جا چکے ہیں۔
اونروا کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں فلسطینی پناہ گزینوں کو انتہائی سخت حالات کا سامنا ہے، خاص طور پر جب سے وہ گزشتہ 77 برس سے مسلسل جبری نقل مکانی کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔
ایجنسی نے وضاحت کی کہ سنہ1948ء کی “نکبہ” یعنی قیامت خیز تباہی کے وقت سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گاؤں اور شہروں سے نکالے گئے تھے آج 77 برس گزرنے کے باوجود یہ مظلوم قوم بدستور اپنی سرزمین سے بے دخل کی جا رہی ہے۔
انروا کے مطابق قابض اسرائیل کی طرف سے جاری جارحیت اور نسل کشی کے نتیجے میں غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک، تقریباً 19 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
ایجنسی کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے بھی اس موقع پر ایک جذباتی پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے غزہ اور غرب اردن میں پناہ گزینوں کی ناقابلِ بیان تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ اونروا ہر صورت میں فلسطینی مہاجرین کو بنیادی سہولیات، تعلیم، علاج، اور انسانی مدد فراہم کرتی رہے گی، تاوقتیکہ ایک منصفانہ اور دیرپا حل سامنے نہ آ جائے۔
فلسطین کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق اگست سنہ2023ء تک ’انروا‘ کے پاس رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد لگ بھگ 59 لاکھ تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق، ان میں سے تقریباً 25 لاکھ پناہ گزین غزہ اور غرب اردن میں آباد ہیں، جن میں 15 فیصد کا تعلق غرب اردن اور 27 فیصد کا غزہ سے ہے۔
عرب ممالک میں، اردن میں رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 40 فیصد، لبنان میں 8 فیصد، اور شام میں 10 فیصد ہے۔
سنہ2017ء میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق، ریاستِ فلسطین میں مقیم مجموعی فلسطینی آبادی کا 42.2 فیصد حصہ پناہ گزینوں پر مشتمل تھا، جن میں سے غرب اردن میں 26.3 فیصد اور غزہ میں 66.1 فیصد لوگ پناہ گزین تھے۔
مرکزی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے شروع ہونے والی تازہ قابض جارحیت کے بعد غزہ کی پٹی میں موجود 22 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد کو دربدر ہونا پڑا۔
غرب اردن میں بھی 1948 کی نکبہ اور 1967ء کی نکسہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے، قابض اسرائیلی جارحیت نے شمالی کیمپوں جیسے جنین، طولکرم اور طوباس میں ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا، جو گزشتہ 80 برسوں میں اس علاقے کی سب سے بڑی جبری ہجرت ہے۔
انروا کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق، شمالی کیمپوں سے اب تک 42 ہزار سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ صرف جنین کیمپ اور اس کے گرد و نواح سے نکلنے والے افراد کی تعداد 21 ہزار ہے، جو کہ جنین شہر اور کیمپ کی مجموعی آبادی کا 30 فیصد بنتی ہے۔ طولکرم اور نور شمس کیمپوں کے تقریباً 19 ہزار رہائشیوں کو بھی سنہ2025ء کے وسط تک نقل مکانی پر مجبور کیا جا چکا ہے۔