مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کے چینل 7 کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو قابض اسرائیلی فوج اور آباد کاروں پر حملوں اور قابض ریاست کے خلاف مسلح جدو جہد کرنے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کو اجتماعی سزا کے طور پر ان کے گھروں سے محروم کرنے کی پالیسی میں توسیع کا حکم دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کی سفارش پر مبنی یہ فیصلہ سابقہ پالیسی سے ایک بنیادی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی ذریعےکے مطابق اس توسیع میں مختلف درجے کی چوٹوں کے کیسز شامل ہوں گے، خاص طور پر جن کو “سنگین حملوں” کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے۔
ہر کیس پر انفرادی طور پر غور کیا جائے گا بعد میں اسے فوجی اور سیاسی سطح پر منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ قومی سلامتی کونسل کے اندر ایک سال تک کام کرنے اور کنیسٹ خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کے ارکان کے دباؤ کے بعد سامنے آیا۔
لیکود ایم کے امیت ہالوی اس مہم کی توسیع کا ایک سرکردہ وکیل ہے، جن کی حمایت دائیں بازو کی تنظیموں بشمول بیتسلیئم کی تھی۔
ایک متعلقہ پیش رفت میں نابلس سے جعفر مونا کے گھر کو منہدم کرنے کا حکم اس وقت جاری کیا گیا جب اس نے تل ابیب میں بم حملہ کیا تھا جس میں ایک اسرائیلی زخمی ہوا۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ بم حملہ ترکیہ میں حماس کی قیادت نے دیا تھا اور اس سلسلے میں آٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نےالقدس سے خالد المحتسیب کے گھر کو اس حملے کے بعد منہدم کرنے کا حکم بھی دیا تھا جب اس نے دو پولیس اہلکاروں کو زخمی کردیا تھا۔
کئی سالوں سے قابض حکام فدائی حملے کرنے والے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اسے دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے ایک رکاوٹ کے طور پر جواز پیش کرتے ہیں۔
اس پالیسی کو مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو اسے اجتماعی سزا کی ایک مکروہ شکل اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ہے۔