Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار، قابض اسرائیل کی ہٹ دھرمی برقرار: باسم نعیم

غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے سیاسی شعبے کے رکن ڈاکٹر باسم نعیم نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں جاری خونریزی روکنے کے لیے ہونے والی جنگ بندی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیل کا وفد جو حالیہ دنوں دوحہ پہنچا وہ کوئی نئی تجویز یا سنجیدہ پیشکش لے کر نہیں آیا، بلکہ جو کچھ پیش کیا گیا وہی پرانا اسرائیلی منصوبہ تھا جسے حماس پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک اہم بیان میں ڈاکٹر باسم نعیم نے کہا کہ حماس نے بارہا اپنی آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ جنگ روکنے کے لیے ہر سنجیدہ اور قابلِ عمل کوشش کا حصہ بننے کو تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک حماس ایک جامع سیاسی عمل میں شریک ہونے کو بھی تیار ہے جو ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہو۔

انہوں نے نہایت جرأت مندی سے اس بات کا اظہار کیا کہ حماس غزہ کی انتظامی ذمہ داریاں فوری طور پر کسی ایسی مشترکہ فلسطینی قیادت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے جس پر سب فلسطینی فریقین متفق ہوں۔

باسم نعیم نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں انسانی المیے کے خاتمے کے لیے بنجمن نیتن یاھو کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ غزہ کی سرحدیں کھولے اور وہاں فوری انسانی امداد داخل ہونے دے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر محاصرہ جاری رہا تو انسانی بحران مزید گہرا ہو گا اور کسی سیاسی حل کی راہ بند ہو جائے گی۔

اسی دوران جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، قطر اور مصر میں جنگ بندی کے حوالے سے سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، جن میں امریکی نمائندگی بھی شامل ہے۔

قابض اسرائیل کا مذاکراتی وفد جس کی قیادت اسرائیلی سکیورٹی ادارے “شاباک” کے نائب سربراہ کر رہے ہیں قطر میں امریکی ایلچی اسٹیفن وٹکوف اور قیدیوں و لاپتہ افراد سے متعلق امریکی اہلکار ایڈم بوہلر کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔

مذاکرات سے کچھ روز قبل حماس نے ایک اہم انسانی اقدام کرتے ہوئے امریکی شہریت رکھنے والے اسرائیلی فوجی قیدی “عیدان الیگزینڈر” کو رہا کر دیا تھا۔ اس رہائی کے پیچھے واشنگٹن کے ساتھ جاری جنگ بندی مذاکرات کے تناظر میں ہونے والے رابطے شامل تھے۔

حماس نے بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ ایک ہمہ گیر معاہدے پر مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو بشرطیکہ قابض اسرائیل اپنی نسل کشی کی کارروائیاں بند کرے، اپنی فوج غزہ سے نکالے اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے۔

لیکن بنجمن نیتن یاھو ذاتی سیاسی مفادات کے لیے مسلسل نئے مطالبات اور شرائط سامنے لا رہے ہیں۔ اسرائیلی اپوزیشن اور قیدیوں کے اہل خانہ بھی انہیں اسی الزام کا مرتکب قرار دیتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے جنگ بندی کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan